اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Email:-sajid_islamabad@yahoo.com
 

Email:-drsajidkhakwani@gmail .com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔22-07-2010

حد قذف ........حصہ اول
 

کالم۔۔۔------------  ڈاکٹرساجد خاکوانی


عربی لغت میں ”قذف“کا مطلب تیر پھینکناہے۔شریعت اسلامیہ میں ”قذف“سے مرادہے کسی پاک دامن مومن مرد یا مومن عورت پر واضع الفاظ میں زنا کی تہمت لگانا یااسکے بارے میں ایسی بات کہنا جس کامطلب یہ ہوکہ وہ زناکار ہے۔”حد“اس سزاکو کہتے ہیں جوبطور حق اﷲ تعالی مقرر کی گئی ہو یاپھر وہ سزاجو کسی انسان کی حق تلفی یا ایزا دہی کی پاداش میں مجرم کو دی جائے۔ایسی سزاو ¿ں کو”حد“ یا ”حدود“اس لےے بھی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے خود سے ایسے جرائم اور انکی سزائیں متعین کردیں ہیںاور کسی کو ان میں کمی بیشی یاتجاوزکااختیارحاصل نہیں ،چنانچہ یہ ”حدود“اﷲ تعالی کی مقرر کردہ ہیں اور ان کو عبور کرجانا گناہ کبیرہ ہے۔قرآن س سنت میں کم و بیش دس ایسے جرائم گنوائے گئے ہیں جو ”حدوداﷲ“کے زمرے میں آتے ہیںاورشریعت اسلامیہ نے انکی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔
قرآن مجید کے اٹھارویں سپارے کی سورہ نور میں احکامات قذف صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں:
”اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھرچارگواہ لے کر نہ آئیںان کو اسی(80)کوڑے مارو اور انکی شہادت کبھی قبول نہ کرواور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے ان لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہوجائیں اور اصلاح کرلیں کہ اﷲ تعالی ضرور(انکے حق میں )غفورالرحیم ہے۔“(سورةنورآیات4,5)
”بے شک جو لوگ پاک دامن ،بے خبر،مومن عورتوں پر تہمتےں لگاتے ہیں ان پر دنیااورآخرت میں لعنت کی گئی اورانکے لےے بڑاعذاب ہے ۔وہ اس دن کو بھول جائیں جبکہ انکی اپنی زبانیں اورانکے ہاتھ پاو ¿ں انکے اپنے کرتوتوں کی گواہی دیں گے ۔اس دن اﷲ تعالی وہ بدلہ انہیں بھرپور دے دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اﷲ تعالی ہی حق ہے اور سچ کو سچ کر دکھانے والا ہے۔“(سورة نور آیات23-25)
قرآن مجید کے لےے ”قذف“کے لےے ”رمی “کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ قذف کے مترادفات میں سے ہے۔لفظ ”رمی“کا مطلب نشانہ لگانا یا تیر چلانا ہے۔حج کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارنے کے لےے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ان آیات سے پہلے حد زنا کا حکم ہے اور بعد میں قانون لعان کی وضاحت کی گئی ہے۔قانون لعان سے مراد میاں اور بیوی کا ایک دوسرے پرزناکا الزام دھرنا ہے۔آیت کے سیاق و سباق سے یہ پختہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ یہاں تہمت سے مراد ”زناکاری“کی تہمت مراد ہے۔
قاذف ےعنی بدکاری کا الزام لگانے والا کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتاہو اس پر بہرصورت حد جاری کی جائے گی،تاہم فقہا نے یعنی اسلامی قوانین کے ماہرےن نے تےن عمومی شرائط بتائی ہیں جو قاذف میں ہونا ضروری ہیں
1۔عقل و بلوغ:یہ بنیادی شرط ہے ہر اس فرد کے لےے جس پر کسی بھی قانون کا اطلاق کیاجاناہو۔
2۔آزادی رائے:قاذف نے بحوش و حواس اپنی مرضی سے اور آزادی سے یہ الزام دھرا ہو۔
3۔صریح الفاظ:قاذف کے الفاظ صریح اورواضع ہونے چاہییں،ذو معنی الفاظ یا شکوک و شبہات حدود کو ساقط کر دےتے ہیں۔
ان کے علاوہ قاذف کے لےے کوئی شرط مقرر نہیں کی گئی،وہ آزاد ہو ،غلام ہو،مسلمان ہو کافر ہو،عورت ہو مرد ہویامعاشرے کے کسی بھی طبقے یا رنگ نسل یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتا ہو اس پر حد جاری کی جائے گی۔
مقذوف یعنی جس پر بدکاری کاالزام دھراگیاہواسکے لےے قرآن مجید نے جو اولین شرط رکھی ہے کہ وہ”محصن“ہو۔”محصن“ وہ ہوتا ہے جو ”احصان“کی شرائط پوری کرتاہویا”احصان“کے معیارپر پورااترے۔”احصان“کالفظی مطلب قلعے کی دےوار ہے جوآبادی کی حفاظت کرتی ہے۔یہاں ”احصان“سے مراد شخصیت کے گرد پاکدامی کا حصار ہے جسے قاذف نے چھلنی کیا اور ”محصن“کی شخصیت اور عزت نفس مجروح ہوئی۔یہ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کا اعجاز ہے کہ اس کتاب میں کس کس طرح کی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں کہ گویا دریاکو کوزے میں سما دیا گیاہو۔
شرےعت اسلامیہ نے ”احصان فی القذف“کی پانچ شرائط مقرر کی ہیں ،یعنی جس میں یہ پانچ شرائط پائی جائیں گی وہ ”محصن“شمار ہوگا اور اسکے قاذف پر حد جاری کی جائے گی :
1۔عقل و بلوغ:یہ جملہ احکامات شرےعت کے عائد ہونے کی بنیادی شرط ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تےن افراد پر سے قلم اٹھالیاگیا ہے بچہ،مجنون اور سویاہواشخص۔چنانچہ ایسے افراد”محصن“نہیں ہوسکتے۔
2۔پاکدامنی:یہ بنیادی شرط ہے۔ایسے افرادجوپہلے سے زناکار مشہور ہوں یازناکی سزاپاچکے ہوںیااس معاملے میں بری شہرت رکھتے ہوں تو وہ ”محصن“ شمار نہ کیے جائیں گے۔
3حرےت:لونڈی غلام ”محصن“نہیں ہوتے اس کے لےے آزادی ایک اور شرط ہے،قرآن مجید نے” محصنات “اور لونڈےوں کو الگ الگ بتایاہے۔
4۔اسلام:آپﷺ کاارشاد ہے کہ جو شخص اﷲ تعالی کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ ”محصن“نہیں چنانچہ غےرمسلم ”محصن“نہیں ہوتا۔
5۔”احصان“کے لےے قابل وطی ہونا بھی ضروری ہے ےعنی جس پر زناکاالزام لگایا جارہا ہے وہ اس الزام کے قابل بھی ہے،بصورت دیگر یہ الزام لغو ہوگا۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ ”ہم نے بنی آدام کو عزت والا بنایاہے“۔اس آیت کے مصداق ہر وہ شخص جو ”محصن“نہیں بھی ہے تب بھی وہ عزت والاہے۔تب شرےعت اسلامیہ حاکم کو پابند کرتی ہے کہ غےر محصن پر بھی اگرکوئی زناکا الزام لگائے تواس کوبہرصورت سزا دی جائے،لیکن یہ سزا” حد “نہیں ہو گی بلکہ تعزےر ہوگی۔تعزےر اس سزا کو کہتے ہیں جس کی کمیت اور حجم حاکم پر چھوڑدےے گئے ہوں۔”حدوداﷲ“کے قوانین چونکہ مقررومتعین ہیں اور ان میں کسی کمی بیشی یا تغےروتبدل کا کسی کو اختیار نہیں اس لےے ”غےرمحصن “کے قاذف پر ”حد“جاری نہ ہوگی۔
”محصن“کے لےے ضروری ہے کہ ”احصان“ کی تمام شرائط پوری کرتاہو،کسی ایک شرط کے ساقط ہونے سے ”حد“بھی ساقط ہوجائے گی ۔اگر کسی ”محصن“پر ایسے وقت میں الزام لگایاگیا جب وہ ”محصن“نہیں تھاےعنی اس وقت وہ حالت کفر میں تھا ،یا غلام تھاوغےرہ توبھی قاذف پر حد جاری نہ ہوگی ۔تاہم ”محصن“کے فوت ہو جانے کے بعد اسکے قاذف پر حد جاری ہوگی کیونکہ ”احصان“ کی شرائط میں ”زندگی“شامل نہیں ۔”محصن“ مرنے کے بعد بھی ”محصن“رہتاہے تاہم کچھ فقہا کے نزدیک ورثاکودعوی قذف کا حق حاصل ہے جبکہ بعض اس موقف کی تردےدکرتے ہیں۔گونگے کے اشاروں سے اس پرحد جاری نہ ہو گی کیونکہ اشاروں میں شک کی گنجائش موجود رہتی ہے اور شک سے حد ساقط ہوجاتی ہے۔تاہم اشارہ اتنا واضع ہوکہ شک کی گنجائش نہ رہے تو حد جاری ہوگی۔
حد قذف کے لےے ضروری ہے کہ الزام کے الفاظ صرےحاََ”عمل زنا“ کی نشاندہی کرتے ہوں۔اشارةََ یا کنایةََ یا شبھةََ لگنے والے ”الزام زنا“کے باعث حد جاری نہ ہوگی۔باپ دادا یا ماں نانی وغےرہ اپنی اولاد پر قذف کے مرتکب ہوں تو ان پر حد جاری نہ ہوگی کیونکہ قرآن مجید نے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔الزام کا مرتکب اس وقت حد کا مستوجب ہوگا جب وہ خود قاذف کی شرائط پوری کرتا ہو اور اس نے جس پر ”الزام زنا“چسپاں کیا ہے وہ ”محصن“ کی شرائط پوری کرتا ہواور”الزام زنا“میں صراحةََ ”عمل زنا“کاذکرہو،تاہم ایک بات پیش نظر رہے کہ جھگڑے کے دوران گالم گلوچ پر ان معاملات کا اطلاق نہ ہوگا۔

جاری ہے

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved