اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Email:-sajid_islamabad@yahoo.com
 

Email:-drsajidkhakwani@gmail .com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔24-07-2010

حد خمر
(نشہ کرنے کی سزا)
 

کالم۔۔۔------------  ڈاکٹرساجد خاکوانی

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
شراب نوشی کو اسلامی قانون میں جرم گرداناگیاہے اور اسکی سزا بھی مقررکی گئی ہے جس کاشمار ”حدوداﷲ“میں ہوتاہے۔”حدوداﷲ“ وہ سزائیں ہیںجنہیں اسلامی ریاست کی طرف سے بطور حق اﷲتعالی نافذکیاجاتاہے۔شراب کے لیے اسلامی تعلیمات میں ”خمر“کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔حضر ت عمر نے خمر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”الخمر ماخامر العقل“کہ خمر وہ ہے جو عقل پر پردہ ڈال دے۔عرب معاشرے میں پانچ چیزوں کو مختلف مراحل سے گزارکر ان میں نشہ پیدا کیاجاتا تھا،یہ پانچ اشیا انگورکارس،کھجور کا خیساندہ،شہد میں پانی ملاکر اور گندم اور جو کو پانی میں بھگو کرہیں ۔آپ ﷺ کاارشاد مبارک ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے نیزمحسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ جس شے کی کثیرمقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے ۔
قرآن مجیدکی اصول قانون سازی میں ایک اصول ”تدریج“بھی ہے ۔اس اصول کے مطابق کتاب اﷲ تعالی نے بعض امور کو ایک دم نافذ کرنے کی بجائے آہستہ آہستہ اور تھوڑاتھوڑاکر کے اہل ایمان پر عائد کیا۔تدریج کی ایک عمدہ مثال حرمت خمر بھی ہے یعنی حرمت شراب بھی یک بارگی نازل نہیں کی گئی بلکہ اس کا حکم تدریجاََنازل ہوا۔مے خوری عربوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی عادت تھی ان کی محفلیں اور انکی راتیںمے خوری سے عبارت ہواکرتی تھیں،شراب کے وہ اس قدر رسیاتھے کہ ان کی جنگیں بھی حالت نشہ میں لڑی جاتی تھیں چنانچہ جنگ احد میں قریش کا لشکر شراب کے مٹکے بھر بھرکے ہمراہ لایاتھا۔عرب کے بڑے بڑے شعرا اپنی عادت شراب خوری کو فخراََ بیان کیاکرتے تھے ان حالات میں قرآن مجید نے تین یا چارمراحل میں شراب کی قطعی حرمت کے احکامات نازل فرمائے۔پہلے اطلاع کے طور پر فرمایا کہ ”اور اسی طرح کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں سے بھی ہم تمہیں ایک چیز پلاتے ہیں جسے تم نشہ آور بھی بنالیتے ہواور پاک رزق بھی“( سورة نحل کی آیت نمبر67)۔اس آیت میں مسلمانوں کو محض مطلع کیاگیا کہ نشہ آور چیز پاک نہیں ہے ۔دوسرا حکم پوچھنے پر ارشادہوا ”پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کاکیاحکم ہے؟کہو ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیںمگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے“(سورة بقرہ آیت219)اس آیت کے نزول کے بعد اکثر اہل ایمان نے شراب نوشی ترک کر دی،بعض علماءکے نزدیک یہی پہلا حکم تھا۔اس آیت کے نزول کے بعدایک بار مدینہ طیبہ میں ایک مسلمان نے حالت نشہ میں نماز پڑھائی اور مقررہ رکعتوں سے زائد پڑھادیں،اس پر اﷲ تعالی نے یہ حکم نازل کیا کہ ”اے لوگو جو ایمان لائے ہوجب تم نشہ کی حالت میں ہوتونماز کے قریب نہ جاو ¿،نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہ رہے ہو“(سورة نساءآیت43)۔اس آیت کے بعد مسلمانان مدینہ طیبہ میں سے جو ابھی بھی مے نوشی کے عادی تھے انہوں نے ایسے اوقات مقرر کر لیے کہ نماز کا وقت آنے تک نشہ ہرن ہو چکا ہوتا۔
آخری حکم اس وقت نازل ہوا جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے مے نوشی کی اور پھر خوب غل غپاڑہ مچایاجس کے نتیجے میں بعض افراد زخمی بھی ہو گئے،اس پر روایات میں منقول ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے خدمت اقدس ﷺ میں عرض کی کہ اﷲ تعالی سے دعافرمائیں کہ شراب کے بارے میں کوئی فیصلہ کن حکم نازل فرمائے،اس وقت غالباََ حضرت عمر مدینہ میں منصب قضاپر بھی فائز تھے اور اس طرح کے مقدمات ان کے پاس لائے جاتے تھے۔چنانچہ اس وقوعہ کے بعد محسن انسانیت ﷺنے ایک خطبہ میں لوگوں کومتنبہ فرمایا کہ اﷲ تعالی کو شراب خوری سخت ناپسند ہے چنانچہ بعید نہیں کہ اس کی حرمت کا حکم آ جائے ۔پس قرآن مجید نے حرمت شراب کی بابت وہ آخری آیت نازل کی جس کے بعد تاقیامت شراب حرام قرار دے دی گئی،اﷲ تعالی نے قرآن میں حکم دیا کہ”اے لوگو جو ایمان لائے ہویہ شراب اوریہ جوااور یہ آستانے اور یہ پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیزکروامید ہے تمہیں فلاح نصیب ہو گی“(سورة المائدہ،آیت90)۔اس آیت کے بعد شراب پینا،پلانا،بنانا،بیچناوغیرہ اور اسکے جملہ استعمال ممنوع و حرام کردیے گئے۔کسی نے محسن انسانیت ﷺ سے پوچھا کہ کیا شراب کو دوائی کے طور پر بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے ؟آپ ﷺ نے اس کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیااور فرمایا کہ شراب میں بیماری ہے۔
شراب خوری کاجرم ثابت ہونے کے چار طریقے ہیں،پہلا طریقہ اقرار جرم ہے لیکن شرط ہے کہ اس طریقے میں مجرم بقائم ہوش وحواس ہو اور اسے اس حدکی کیفیت و کمیت کا بھی اندازہ ہو اور وہ بغیر کسی جبرواکراہ کے یہ اقرارکررہاہو،بعض فقہاکاکہناہے کہ اس سے ایک سے زائد بار کی مجالس میں اقرار کرایا جائے گا اور تب اس پر حد جاری کی جائے گی۔شراب خوری کے جرام کے اثبات کا دوسرا ذریعہ گواہان ہیں،دو عادل ،مسلمان اور آزادگواہوں کی گواہی سے یہ جرم ثابت ہو سکے گا جب کہ وہ عدالت کے روبروبیان دیں کہ انہوں بنظر خود مجرم کو شراب نوشی کرتے دیکھاہے۔اس جرم کے اثبات کا تیسراطریقہ شرابی کے منہ سے بدبو کا پھوٹنا ہے ،لیکن بعض فقہاصرف بو کے قرینے سے حد جاری کرنے سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ کسی اور چیز کی بو شراب کے مشابہ ہو سکتی ہے،اور ایک حدیث نبویﷺ کی رو سے شبہ سے حدود ساقط ہو جاتی ہیں۔آخری ذریعہ جس سے شراب خوری کا جرم ثابت ہوسکتاہے وہ نشہ کی حالت مخمورمیں رنگے ہاتھوں پکڑے جانا ہے لیکن اس صورت میں عدالت میں اجرائے حد کے لیے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ شراب نوشی میں اس فرد کی کتنی رضا شامل تھی،اگر اس شخص نے یہ ثابت کر دیا کہ اسے زبردستی شراب پلائی گئی ہے توپھر بھی حد جاری نہیں کی جا سکے گی۔
جرم ثابت ہو جانے پر حد جاری کی جائے گی یعنی مجرم کو سزا دی جائے گی لیکن نشہ کی حالت میں سزا نہیں دی جائے گی اور نشہ کے اترنے کا انتظار کیاجائے گا۔نشہ اترنے کے بعد گرمیوں میں ٹھنڈے وقت اور سردیوں میں گرم وقت کا انتخاب کیاجائے اور مریض اگر بیمار ہے تو اس کے صحت مند ہونے تک بھی حد موخر کی جائے گی۔حد کا آغازقاضی کرے گااور اگر گواہوں سے جرم ثابت ہواہے تو گواہ بھی حد کے اجرامیں شریک کارہوں گے جبکہ باقی ماندہ سزا جلاد سے پوری کرائی جائے گی۔مسجد میںحدودجاری کرنے کی اجازت نہیں اس عمل کے لیے ضروری ہے کہ کھلے عام جگہ پر ہواورعوام الناس اس کیفیت کا نظارہ کریں تاکہ سزااور بدنامی کاخوف لوگوں کو اس جرم سے باز رکھنے میں اپنا کردار اداکرسکے۔دورنبوت میں کوڑوں کی کوئی خاص تعدادمقررنہ تھی اور شرابی کو جوتوں ،ڈنڈوں اور سخت کپڑوں سے ماراپیٹاکرتے تھے۔
حضرت عمر اپنی خلافت کے ابتدائی دور میں نشے کی حالت میں پائے جانے والے شخص کو جسے کسی بھی چیز سے نشہ ہواہو اسے چالیس کوڑے مارتے تھے،لیکن اپنی خلافت کے آخری ایام میں حضرت عمر نے ایک خاص واقعہ کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے اس جرم کی سزااسی کوڑے جاری کردی۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے ابوابرہ کلبی کوحضرت عمر کے پاس بھیجا ،اس وقت حضرت عمر مسجد میں تھے اور ان کے پاس حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت زبیر بن عوام،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ بھی موجود تھے۔ابوابرہ کلبی نے حضرت عمر سے کہا کہ حضرت خالد بن ولید کہتے ہیں کہ لوگ بکثرت مے نوشی اختیار کرتے جارہے ہیں اور سزاکوکم سمجھ رہے ہیں۔حضرت عمر نے فرمایا کہ سب بیٹھے ہیں ان سے دریافت کرلو،حضرت علی نے فرمایاکہ ہماری رائے یہ ہے کہ آپ شراب نوشی کی سزا اسی(80)کوڑے مقرر کردیں کیونکہ جب کوئی آدمی شراب پیتاہے تو اسے نشہ ہوتاہے اور نشہ میں ہذیان بکتاہے اور لوگوں پر تہمت لگاتاہے اسی لیے تہمت کی سزا ہی شراب نوشی کی سزا مقرر کردیں جو کہ ۰۸کوڑے ہے۔چنانچہ اس رائے کے مطابق حضرت عمر نے شراب نوشی کی سزا ۰۸ کوڑے مقرر کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔حضرت عمر نے اس لیے بھی ۰۸ کوڑے مقرر کی کہ حضرت ابوسعید خزری سے مروی ہے کہ شراب نوش کو آپ ﷺ نے جوتیوں کے چالیس جوڑے مروائے ،اور حضرت عمر نے ہر جوتی کی جگہ ایک کوڑا مقرر کیا۔شراب نوشی کے ساتھ اگر کوئی اورجرم بھی جمع ہوجاتا تو حضرت عمر اسکی سزا بھی حد کے ساتھ جمع کر دیتے،جیسے انہوں نے اپنے بیٹے عبدالرحمن پر حد کے ساتھ تعزیر بھی جمع کی۔ایک مرتبہ حضرت عمر نے رمضان کے دوران مے نوشی پر ایک شخص کو اسی درے شراب نوشی کے اور بیش کوڑے رمضان کی بے حرمتی کے بھی لگائے۔جو شخص جتنی مرتبہ شراب پئے گا اتنی مرتبہ ہی اس پر حد جاری کی جائے گی چنانچہ ابومحجن ثقفی نے آٹھ مرتبہ شراب پی اور حضرت عمر نے اس پر آٹھ مرتبہ ہی حد جاری فرمائی۔
شرابی پر اس وقت حدجاری ہوگی جب اسکا نشہ اتر جائے گااور کوڑے جومارے جائیں گے وہ زیادہ شدید نہیں ہونے چاہییںبلکہ ہلکے لیکن درد پہنچانے والے ہوں۔چنانچہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص لایا گیاجس نے شراب چڑھائی ہوئی تھی آپ نے فرمایا کہ میں تجھے ایک ایسے شخص کے پاس بھیجتاہوں جوتےرے ساتھ کوئی نرمی نہیں کرے گا۔چنانچہ اسے مطیع بن اسود عدوی کے پاس بھیج دیا گیا اور ان سے کہا کہ اگلے دن صبح اس پر مے نوشی کی حد جاری کر دینا چنانچہ اگلے دن حضرت عمر خود گئے تو دیکھاکہ وہ اس مے نوش کو سخت قسم کے کوڑے ماررہے ہیں،حضرت عمر نے پوچھا کتنے مارے جا چکے ہیں جواب دیاکہ ساٹھ،حضرت عمر نے حکم دیا اس کوڑے کی شدت کے سبب باقی بیس چھوڑ دو۔شراب نوشی کی حد میں چالیس کی بجائے اسی کوڑوں کا تقررچونکہ حضرت عمر کے دور میں ہوااس لیے بعض فقہا ان اضافی چالیس دروں کو تعزیر کامقام دیتے ہیںتاہم جمہور علمائے امت کل اسی کی تعداد کو ہی حد گردانتے ہیں کیونکہ اس تعداد پر صحابہ کرام کا اجماع واقع ہوا ہے اور جس مقدس گروہ سے جمع و تدوین قرآن میں کسی غلطی کا احتمال نہیں ہوا اس گروہ سے دیگر معاملات میں غلطی کے احتمال کے امکان سے قرآن مجید کی صحت مشکوک ہو سکتی ہے۔
شراب کی حرمت کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن بنیادی وجہ جو فوری طور پرانسانی ذہن میں وارد ہوتی ہے وہ جملہ امور سے غفلت ہے کہ ایک شخص کے نشہ میں آتے ہی اس پر اس حد تک غفلت سوار ہو جاتی ہے کہ وہ امور دینی و اموردنیاوی سے یکسر غافل ہو جاتا ہے اور یہ امر شریعت کو کسی طور بھی قبول نہیں۔اسی طرح جس جس کام سے بھی انسان غفلت میں جاگرے اس سے شریعت نے کراہت کا اظہار کیا ہے اسے ”لہوالحدیث “کہاگیاہے کہ جس کام کا کوئی مقصد نہ ہو اور جو کام عادت ثانیہ بن جائے اور اس کے بغیر انسا ن کا گزارہ نہ چل سکے اور وہ نشہ کی حد تک جا پہنچے اس سے علمائے حق سختی سے منع کرتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔اور جس چیز کی کثیر مقدار نشہ دے اس کی قلیل مقدار بھی حرام کر دی گئی ہے تاکہ اس طرف جانے والے دروازے ہر طرح سے بند کر دیے جائیں اور انسانوں کو ذمہ دار کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی تعلیم و ترغیب دی جائے ۔موسیقی،چیٹنگ،ٹیلی ویژن بینی،ہروقت کی دوستیاں،فضول اور بے مقصد گپ شپ ،کیرم،تاش،شطرنج اور اس طرح کے دیگر مشاغل جووقت کے ساتھ ساتھ انسانی معاشروں میں در آئیں گے اور براہ راست یا بالواسطہ نشہ کا باعث بنیں گے ان کے جائز یا ناجائز ہونے میں تو کلام ہو سکتاہے لیکن اگر یہ اس حد تک بڑھ جائیں کہ نشے کی حدود کو چھونے لگیں اور ان کے بغیر زندگی کا تصور محال ہو جائے اوران میں بہت زیادہ مشغولیت دیگر حقوق و فرائض سے غفلت کا موجب ہو نے لگے تو یہ بھی قیاساََ نشے کے ضمرے میں آ جائیں گے اور ان سے بچنا اور بچنے کی ترغیب دینااور اپنی اولا د پر اس معاملے میں سختی کرناعین فرائض دینیہ میں داخل ہو جائے گا۔

 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved