اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Email:-sajid_islamabad@yahoo.com
 

Email:-drsajidkhakwani@gmail .com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔27-09-2010

اسرائیل  کا ایٹمی پروگرام اورایران کے بارے میں امریکہ کادہرامعیار
 
 

کالم۔۔۔------------  ڈاکٹرساجد خاکوانی


جمعة المبارک 24ستمبر2010کوآسٹریاکے دارالحکومت ویانامیںعالمی ادارہ برائے ایٹمی توانائی

( IAEA)

کے سالانہ اجلاس میں مشرق وسطی کے بارے میں امریکہ نے اپنی دہری پالیسی دنیاپرایک بار پھرواضع کر دی۔اس بین الاقوامی فورم میں عرب لیگ کے حمایت یافتہ گروپ نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے خلاف قراردادپیش کی تھی ۔اس قراردادمیں کہاگیاتھا کہ اسرائیل کو عالمی ایٹمی قوانین کا پابند بنایا جائے اور جب جب اور جہاں جہاں وہ ان قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے وہاں اس کی نگرانی کی جائے اور اسے عالمی ایٹمی انرجی کمشن

(IAEA)

 سامنے جوابدہ بنایا جائے۔یہ کم و بیش وہی موفف ہے جو امریکہ پوری شدو مد کے ساتھ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں رکھتاہے اور امریکہ کی پوری کوشش ہے ہے ایران کو عالمی قوانین کے تحت لاکر اسے بھی عالمی ایٹمی اخلاقیات کا پابند بنایا جائے لیکن امریکہ کا دہرا معیار یہاں پر واضع ہو جاتا ہے جب اس نے اپنے ہی بنائے ہوئے معیار پر ایران کو تو پوراپورا تولنے کی کوشش کی لیکن جب اسرائیل کی باری آئی تو نہ صرف یہ کہ اسکے معیار ہی بدل گئے بلکہ اس نے عرف عام میں خوب خوب ڈنڈی ماری اور اپنی دوغلی پالیسی کا کھل کر اظہار کیا۔
جمعة المبارک 24ستمبر2010کوآسٹریاکے دارالحکومت ویانامیںبین الاقوامی ایٹمی انرجی ایجنسی

( IAEA)

کے سالانہ اجلاس میں یہ قرارداد پیش کی گئی تھی کہ اسرائیل کی ریاست عالمی معاہدہ

Nuclear

 Nonproliferation Treaty (NPT)

 

 سے تجاوز کررہاہے اور اسے اس معاہدے کا پابند بنایا جائے۔عالمی اداراہ برائے ایٹمی توانائی

(IAEA)

کے اس فورام میں جو اقوام متحدہ کی طرف سے بنایا گیا ہے اس ادارے میں موجودایک سواکیاون(151) ممالک کے نمائندوں میں سے اکیاون(51) نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور چھیالیس (46)نے اس قرارداد کی حمایت کی جبکہ تئیس( 23)غیر جانبداررہے اور باقی ممالک کے نمائندے غیر حاضر تھے۔چنانچہ اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادناکام ہو گئی صرف پانچ رائے دہندگان کے فرق سے۔جب کہ گزشتہ سال2009میں یہی قرارداد منظور ہو گئی تھی اور اس قرارادکے حق میں اننچاس(49)اور اسکی مخالفت میں پنتالس(45) رائے دہندگان نے اپنی آراءکا اظہارکیاتھاجبکہ سولہ (16)اراکین نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔اگر چہ پچھلی دفعہ اور اس بارگی کی تعداد میں کوئی اچھوتا فرق نہیں ہے لیکن پھر بھی اسرائیل کی ایک سال کی محنت اورامریکہ بہادر کی بھرپور سرپرستی نے اسرائیل کی مخالفت کو بہت حد تک دبادیا۔اسرائیل کے اخبار”دی یروشلم پوسٹ“ نے قرارداد پیش ہو نے کے بعدسے اسرائیلی قیادت کی ایک ہفتے کی تگ و دو کا تفصیلی ذکر کیاہے اور بتایا ہے کس طرح اسرائیلی وزیر دفاع اپنے دفتر میں مسلسل ٹیلی فون پر مصروف کار رہے اورکس طرح اس قیادت نے امریکی اثرورسوخ کوبھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے حق میں رائے ہموار کرنے کی کوشش کی۔اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد یروشلم میں اسرائیلی قیادت نے امریکہ کو اس مہم میں بہت ممدو معاون اور مددگار کے الفاظ سے یاد کیا۔کیادورخی ہے کہ امریکہ پوری دنیاکو مجبور کرتےاہے کہ

NPT

پر دستخط کرواور خود اپنی لاڈلی ناجائز ریاست اس قانون سے بری الذمہ ہے۔
گزشتہ سال کی ناکامی اور اس سال کی کامیابی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ سال تک عالمی ادارہ

(IEAE)

 برائے ایٹمی توانائیکے سربراہ ”محمود البرادی “تھے ،اور یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق محمود البرادی اور اسرائیل کے تعلقات کبھی بہتر نہیں رہے تھے ،اس کی وجہ بڑی آسانی سے یہ نام”محمودالبرادی“پڑھ کر ہی سمجھ آسکتی ہے۔گزشتہ دسمبر میں اس ادارے کے سربراہ تبدیل ہو گئے اور محمود البرادی کو برخواست کر دیا گیااور ان کی جگہ نئے سربراہ”یوکیاامانو“کاتقررکیاگیا۔محمودالبرادی کی برخواستگی کے ساتھ ہی

IAEA

کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا۔اس نئے سربراہ نے اپنی سربراہی کے دوران اسرائیل کا دورہ بھی کیااور اسرائیلی صدرشمعون پیریزسے ملاقات کی،نئے سربراہ کی بڑی گرمجوشی سے مہمان نوازی کی گئی ۔ان نئے اور بہتر تعلقات کی وجہ بھی نیانام”یوکیاامانو“پڑھ کر سمجھ آسکتی ہے۔اگر نئے سربراہ کانام بھی پرانے سربراہ کے نام کی قبیل سے ہوتاتو شایدیہ تعلقات اسی طرح ہی سرد مہری کا شکار رہتے ،لیکن اب یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تمام تر عالمی ادارے جنہیں امریکہ اور یورپ کی آشیرباد حاصل ہے وہ بلاتامل ”عالمی ادارے“یا ”بین الاقوامی ادارے“قطعاََ بھی نہیں ہیں بلکہ یہ ادارے طاغوت اور سامراج کے نمائندہ ادارے ہیں اور سرمایادارانہ نظام کو تحفظ دیتے ہوئے مسلمانوں کی بیخ کنی کی خاطر بناکر اس دنیا پر مسلط کیے گئے ہیں اور اندھابانٹے ریوڑیاں پھرپھراپنوں کو کے مصداق انہیں ہر معاملے میں صرف اپنے مفادات ہی نظر آتے ہیں اور انسانیت،امن عالم،عالمگیریت اور بین الاقوامیت کے ڈھونگ انہوں نے صرف دکھانے کے دانتوں کی حد تک سنبھال رکھے ہیں۔
قراردادپر رائے دہندگی سے قبل امریکی نمائندے نے واضع طور پر خبردارکیاکہ قرارداد کے نتائج اسرائیل اور فلسطین کے امن پروگرام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔گویایہ ایک دھمکی تھی مسلمان ملکوں کے خلاف کہ کہ اپنے موقف سے باز آ جاو ¿۔جبکہ اسرائیل کے نمائندے ”ایہود ایزولائے“نے شام اور ایران کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہاہے کہ یہ دونوں ممالک ایٹمی اسلحہ بناکر مشرق وسطی کا امن خراب کرنے پر لے ہیں۔کوئی تواسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ سے پوچھے کہ کیا ایران اور شام کی افواج نے بھی کسی بستی کا محاصرہ کررکھاہے ؟؟اور کیاان ملکوں نے بھی کبھی انسانی آبادیوںپر بمباری کرتے ہوئے شہریوں کا قتل عام کیاہے ؟؟اور کیا کبھی ایران اور شام کی بحریہ نے بھی ماہی گیروں کی کشتیوں پراندھادھند بمباری کی ہے؟؟ اور پھر کیاایران اور شام نے کبھی صحافیوں اورانسانی جانی تحفظ کے سامان سے لدے ہوئے جہاز پر بھی شب خون مارا ہے؟؟اس کے باوجود بھی اسرائیل انسانیت کا عالمی چمپئن ہے،امن پسند اور بے ضرراور معصوم ہے تو پھر شاعر کے کیاخوب کہاکہ ”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“۔ایرانی نمائندہ وفد کے سربراہ”علی اسغر سلطانی“نے اس موقع پر کہا کہ اگر چہ یہ قرارداد نامنظور ہو گئی ہے لیکن پھر بھی یہ امریکہ اور اسرائیل کی واضع ناکامی ہے جو انہوں نے جملہ ملکوں کے رویے میں دیکھ لی ہے۔ایرانی نمائندہ وفد کے سربراہ چونکہ خود اس کھیل کا حصہ رہے اس لیے انہیں اندازہ ہے کہ صرف پانچ ووٹوں کی اکثریت کے لیے بھی امریکہ اور اسرائیل کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہو نگے اور گزشتہ دسمبر سے

IAEA

کے سربراہ کی تبدیلی کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ اس منزل کے حصول کے لیے مسلسل کاوش میں ہو نگے اورپھر بھی ایسی گئی گزری کامیابی میسر آئی کہ دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گئے۔
عرب اقوام اگر اب بھی اپنے عرب نیشنل ازم میں گرفتار رہے تو اسی طرح منہ کی کھاتے رہیں گے۔ان سے کہیں زیادہ نخوت و تکبرقریش مکہ میں تھالیکن جب اسلام کی چھتری تلے آکرانہوں نے اپنی ”میں“امت کی اجتماعیت میں تحلیل کر دی تووہ ایک ناقابل زوال عالمی و تاریخی عروج کے وارث بن گئے۔عرب اقوام اگر آج بھی اس حقیقت کو جان لیں اورآخری خطبے کے اس جملے کوہضم کرلیں کہ ”کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے“تو وہ ایک بار پھر اس دنیا میں وہی عزت و توقیر حاصل کرسکتے ہیں جو ماضی میں ان کے اسلاف نے حاصل کی۔کل امت مسلمہ کی امید بھری نظریں آج بھی حرمین شریفین ،حجازمقدس اور لسان القرآن کے حوالے سے عربوں کی طرف اٹھتی ہیں۔عرب قیادت عرب لیگ کی بجائے اسلامی دنیا کے اجتماعی اداروں کو مضبوط کرے،کل امت کے ساتھ مل کر ایک متفقہ خارجہ پالیسی بنائی جائے اور آخر یہ کیونکر ممکن نہیں ہے پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کے پجاری کئی ممالک بلکہ پورے کے پورے براعظم مل کر ایک خارجہ پالیسی بنا سکتے ہیں،ایک کرنسی کے تحت اپنی معاشی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں اور دنیاکو بے وقوف بنانے کے لیے ایک ہی طرح کے دلفریب نعرے الاپ سکتے ہیں توایک ہی دین ایک ہی ایمانیات اورایک ہی قبلے کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے والے ایک قیادت کی چھتری کے نیچے جمع کیوں نہیں ہو سکتے؟؟آج بھی سقیفہ بنی ساعدہ سے یہی گونج آ رہی ہے کہ کل امت کے افراد کسی مشرق و مغرب کی قیادت کو قبول نہیں کریں گے خواہ وہ کتنی ہی قربیانیاں دینے کے بعد منظر عام پر نظر آرہی ہو بلکہ آج کی امت بھی خلافت راشدہ کی طرح عرب قیادت پرہی بآسانی متفق ہو پائے گی اور جلد یا بدیر یہ کام عرب قیادت کو ہی کرنا ہے کہ ”قبا چاہیے اس کو خون عرب سے“۔اتحادامت ہی واحد راستہ ہے جس کے توسط سے یہودونصاری وہنود سے خلاصی حاصل کی جا سکتی ہے ۔اسی اتحاد امت کے نتیجے میں اس دنیا سے سیکولزازم کا طلسم ٹوٹے گااور کفروالحاویزیدیت کے مہیب سائے انسانیت کی بستی سے رخت سفر باندھیں گے کہ اﷲ تعالی کے آخری پیغام اور ختم نبوت و علی مولائیت وحسینیت کا درس صرف اسی امت کے پاس ہی ہے۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved