اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ssbox381@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-07-2011

عورت کی خوبی دو باتوں میں ہے

کالم ۔۔۔------------ سمیع اللہ خان

حضر ت ابو بکر صدیقؓ کی رحلت کے کچھ عرصئہ بعد خلیفہ دوم فاروق اعظمؓ نے ان کی دختر ام کلثومؓ کا رشتہ ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مانگا۔
سیدہ عائشہؓ نے جوابا کہا امیرالمومنین آپ کی طلب پر کیسے انکار ممکن ہے“۔جب عمر بن خطابؓ تشریف لے گئے تو ام کلثوم نے ؓ حضرت عائشہؓ سے سخت احتجاج کیا اور کہا:
”آپ اچھی طرح جانتی ہیں عمرؓ سخت مزاج ہیں اور ان کی حیات حد درجہ سادہ و بے کیف ہے۔میری تو خواہش ہے کہ کسی ایسے نوجوان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوں جو دنیا کی ہر نعمت میرے پیروں میں لا کر رکھ دے۔
زوجہ رسولﷺ نے اپنی بہن کی بات تسلی سے سنی اور خاموش رہیں۔پھر حضرت عمرو بن العاصؓ کو بلوا بھیجا۔جب وہ آئے تو انکے سامنے درپیش صورتحال کا تذکرہ کیا ۔انہوں نے کہا ”امی جان آپ ؓ پریشان نہ ہوں میں اس مسلئے کا حل نکالتا ہوں“۔
حضر ت عمرو بن العاصؓ امیرالمومنین کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور پوچھا
”کیاامیر المومنین کوئی نیا نکاح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟“۔
فرمایا
”ہاں عنقریب“۔
پوچھا
”کس خاتون کو آپؓ نے منتخب کیا ہے“۔
جواب دیا
”ام کلثومؓ بنت ابو بکرؓ “۔
انہوں نے کہا آپؓ کیلئے یہ رشتہ موزوں نہیں ہو گا۔ وہ لڑکی نازونعمت میں پلی ہے۔آپ ؓ کے ہاں کی سخت زندگی کا خود کو عادی نہ بنا سکی تو مشکل حالات پیدا ہو جائیں گے۔وہ صدیق اکبرؓ کی بیٹی ہیں اگر انہوں نے کبھی اپنے والد کا حوالہ دے کر اپنی تکالیف و پریشانیوں کا اظہار کیا تو ہم سب کے واسطے باعث رنج و غم ہو گا“۔
خلیفہ مومنین صحابی رسولﷺ ذہین و فطین شخصیت کے مالک تھے فرمایا:
”معلوم ہوتا ہے (حضرت)عائشہؓ نے تجھے میری طرف بھیجاہے“۔
”کہا جی ہاں ©:آپ نے بجا فرمایا ہے“۔
حضرت عمرؓ نے ام کلثومؓ سے شادی کا ارادہ ترک کر دیا اور ایک اور جگہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
شادی کیلئے گھر والوں اور سربراہ مملکت دونوں نے لڑکی کے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھا اور اس کی امنگوں کا احترام کیا۔لیکن ہمارا معاشرہ آج تلک قدیم فرسودہ روایات میں جکڑا نظر آتا ہے۔ہم مسلمان تو کہلواتے ہیں لیکن اسلام کو اپنی ذاتی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں دیتے یا بہت کم دیتے ہیں۔ایک ملت ہونے کے باوجود نسلی تعصب میں مبتلا ہیں۔
اس ضمن میں ڈاکٹرمحمد خلیل لکھتے ہیں”قوم پرستی کی بیماری نے مسلمانوں کے زوال میں اہم کردار ادا کیا ۔مثلا مسلیمہ کذاب کا ساتھ بنو حنیفہ نے اس کو جھوٹا جانتے ہوئے بھی محض قبائلی عصبیت میں دیا۔بنو امیہ کے دور میں مضری اور یمنی قبائل آپس میں ٹکرائے۔اسی طرح بنوعباس کے دور میں بھی قومی منافرت نے اہم کردار ادا کیا۔اس کے بعد عربوں اور ترکوں کو قوم پرستی نے لڑایا اور کفار کے غلام ٹھہرے ۔اس خطرناک مرض میں برصغیر کا معاشرہ حیرت انگیز طور پر مبتلا ہے ۔یہاں راجپوت‘جاٹ ‘گجر‘آرائیں وغیرہ کی منافرتیں قائم ہیں اور مسلمان ہوتے ہوئے ایک دوسرے کو برا سمجھا جاتا ہے ۔باہمی رشتہ داری کو کفر خیال کیا جاتا ہے۔اس طرح کمی اور چودھری کی بحث جاری ہے “۔
اسکے ساتھ ساتھ لسانی و علاقائی بنیادوں پر بھی نفرتوں کی بڑی خلیج ایسے ہی نظر آتی ہے جیسے شدید زلزے کے بعد (ایک ہی سیارے)زمین کا سینہ پھٹ کر دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے ۔اور یہ کس قدر بھیانک صورتحال ہوتی ہے یہ وہی جانتا ہے جس نے یہ ہیبت ناک منظر اپنی برہنہ آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہو۔حیف ہے ایسے مسلم پر ۔
اس کے شدید تر نتائج کے باوجود ہمارے معاشرے کے والدین کی ہٹ دھرمی زور شور کے ساتھ جاری ہے۔کہیں صنف نازک کو ونی کیا جاتا ہے تو کہیں بے جرم و خطاءکاروکاری کی ضرب تلے بے رحمی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔روز بروز کورٹ میرج کیسز کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ( لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ بنت حوا یہ انتہائی اقدام اٹھانے کے باوجو د ظلم کی چکی تلے پستی رہتی ہے کیونکہ اب اس کے دامن میں میکے نام کا لفظ ناپید ہو چکا ہوتا ہے جو خاوند کیلئے کھلی چھٹی کا پروانہ ثابت ہوتا ہے۔ کورٹ میرج کرتے وقت نشہءالفت میں علیحدگی کی ناگریز صورتحال کی شرائط قر یبا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور نتیجا وہ خاوند او ر سسرالیوں کے رحم و کرم پر بے کیف زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے )۔اس کی وجوہات(کورٹ میرج کیسز) میں جہاں نسلی ‘لسانی اور امارت کا گھمنڈ کار فرما ہے وہاں مادر پدر آزاد میڈیا‘انٹرنیٹ ‘غلط رسائل ‘اخلاقیات سے مبرا لٹریچر اور موبائل فون کے ضرر رساں استعمال کا بھی اہم کردار ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اولاد کی اچھی تربیت کرنے کے ساتھ ساتھ بیاہ کے وقت ان کی خواہش کا خیال رکھیں وگرنہ ان کی ہٹ دھرمی اور ایک جوڑے کی امنگوں کی بھینٹ پورے قبیلے کی عزت برباد ہو جاتی ہے اور صدیوں تک نسلیں طعن و تشنیع کے گھناﺅنے وار برداشت کرتی ہیں اور اپنے اجداد کو کوستی رہتی ہیں۔کیونکہ انسانی حیات میں عزت کا معیار عورت کے بلند کردار کے گر د گھومتا ہے۔ اگر جائز امنگوں کی مناسب وقت پر تکمیل نہ کی جائے تو معاشر ے میں بگاڑ کا پیدا ہونا فطرتی عمل ہے۔اورپھراس سے معاشرے میں تعفن پھیلتا چلا جائے گا جو سمیٹنے سے بھی نہ سمیٹا جاسکے گا۔
اگر بنت حوا کے حقوق غصب کرنے کی سعی کی جائے یا اس کے جائز جذبات کو پس پشت ڈالا جائے تو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے اسے اپنے حق کی خاطر آواز بلند کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ حوا کی بیٹی کو خاتون جنت ‘جگر گوشئہ رسولﷺ کا یہ فرمان عالیشان بھی مد نظر رکھنا چاہیئے ۔آپؓ (حضرت فاطمہ ؓ)نے فرمایا:
”عورت کی خوبی دو باتوں میں ہے۔(اول)اسے کوئی غیر محرم نہ دیکھے ۔(دوم)وہ بھی کسی غیر محرم کو نہ دیکھے “۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved