اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ssbox381@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-07-2011

 ہجرتِ مدینہ ‘جلتا کراچی اور عوامی ریفرنڈم

کالم ۔۔۔------------ سمیع اللہ خان

اصولِ قدرت ہے جہاں پھوٹ پڑتی ہے وہاں سے رزق اٹھا لیا جاتا ہے ‘رحمت و برکت ختم ہوتی ہے اور بالاآخر وہ قوم بے رحم سرداروں اور دشمنوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتی ہے۔
آپ تاریخ عرب و عجم اُٹھا کر دیکھ لیجئے ‘دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیے نفاق اور کشادہ رزق آپ کو اکٹھے نہ ملیں گے۔محبت و نفرت یکجا نہیں ہو سکتیں ۔پانی اور آگ ایک دوسرے کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔اور موم جب آگ کو گلے لگاتی ہے تو نیست و نابود ہو جاتی ہے۔جب کوئی قوم لسانی علاقائی و فرقہ وارانہ عصبیتوں کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو پھر وہ قوم نہیں رہتی بپھرا ہوا ہجوم بن جاتی ہے۔جس کی شکست یقینی ہو جاتی ہے اور یہ اصولِ فطرت ہے۔
محب وطن لوگوں کے سینے میں دسمبر 1971کا زخم آج بھی ہرا ہے۔بنگلہ دیش (چونکہ یہ لفظ ایک ہی قوم کو تقسیم کر گیا)کا لفظ آج بھی ان کے دل میں بھڑکی لگاتا ہے اور رخسار تر کر دیتا ہے۔مکتی باہنی کے الفاظ آج بھی لب پر آئیں تو قلب میں ٹیسیں اُٹھتی ہیں ۔لرزہ خیز و انسانیت سوز مناظر آنکھوں کے سامنے ہلچل مچا دیتے ہیں۔بہنوں‘بیٹیوں کی زخم زخم روحیں چلا اُٹھتی ہیں۔تڑپتی ماﺅں اور سسکتے بچوں کی آہیں فضا سوگوار کر دیتی ہیں۔شر پسندوں کے ہاتھوں ریزہ ریزہ ہونے والے اجسام تھرتھرانے لگتے ہیں۔ہاتھوں‘پاﺅں اور پیشانی میں لگے کیلوں کے باعث لٹکتی لاشیں فلک شگاف چیخیں بلند کرتی ہیں۔بوڑھوں ‘ضعیفوں کے آنسو زمین سیراب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔لیکن بے حسوںکو اس سے کیا مطلب۔
جنرل نیازی ہو یا سرنڈر کرتا ہوا کوئی اور بشر عوام کے دل کل بھی اُن کی محبت سے خالی تھے اور آج بھی اُن کے قلوب ایسے اشخاص کے لیئے الفت کا مادہ رکھنے سے قاصر ہیں ۔مگر اس سب کے باوجودہم معاشی غلام کیونکر بن گئے ؟ہمارے منصف ہمیں انصاف کیوں نہیں فراہم کرتے ‘ہماری عدالتیں کیوں سرنگوں ہوتی رہیں‘برے لوگ مسند اقتدار پر کیسے قابض ہوئے؟ملک کے غدار سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کے کیوں دفن کیئے گئے؟پاکستان کے فرزند اور بیٹیاں فروخت کرنے والا صدارتی پروٹوکول کے ساتھ کس لیئے رخصت ہوا؟ملکی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے اور قومی حمیت کا سودا کرنے والے بار بار کیوں برسر اقتدار آئے؟آئے روز اخلاقیات سے مبرا خبریں میڈیا کی زینت کیوں بنتی ہیں؟ملک تقسیم کرنے والے ہیرو کیسے بن گئے؟القاعدہ کہاں سے آئی کیوں آئی اور کیا اسکا وجود ہے بھی یا نہیں ؟ طالبان کے نام پر قوم کیوں بٹ گئی؟ایبٹ آباد آپریشن کیوں اور کیسے ممکن ہوا؟کراچی و بلوچستان میں خون کے دریا کون اور کیوں بہارہا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو کسی زندہ قوم کیلئے کسی قیامتِ صغر ©ی سے کم نہیں لیکن یہ سب کچھ ہمارے ہاں اس لیئے اور صرف اس لیئے معرض وجود میں آتا رہا کہ ہم ایک سرحد کی حدود میں تو رہ رہے ہیں مگر ہم نے ان ایشوز کو اپنی اپنی ذات کے اغراض و مقاصد کے آئینے میں پرکھتے رہے‘قومی سوچ پنپنے سے قبل دم توڑتی رہی‘ہمارے مابین جو اخوت ‘ایثار و بھائی چارے کے رشتے ناطے تھے وہ ذاتی مفاد‘نفس پرستی ‘ہوس پرستی ‘برادر کشی اور انتشار کی صورت اختیار کرگئے۔اسی اثناءمیں ریاست کے وجود کے دشمن اس کے مالک بن بیٹھے ۔فرقہ واریت ‘لسانیت اور علاقائیت کا اژدھا ہمارے اتفاق کو نگل گیاپھر نتیجہ یہ نکلا کہ خون آشام شامیں اور بہتی آنکھیں ہمارا مقدر بن گئیں۔
آج چونسٹھ برس بیت گئے ہم پاکستان کے نام پر ‘اسلام کے نام پر‘دو قومی نظریے کے نام پر اپنے عزیزو اقارب ‘دولت و ثروت الغرض سب کچھ قربان کر کے آنے والوںکو اپنا نہ بنا سکے‘مکین نہ کہ سکے ۔ہجرت مدینہ کے بعد اخوت و بھائی چارے کی وہ عظیم مثال جس کی تاریخ عالم مثال لانے سے قاصر ہے یکسر بھلا بیٹھے۔مال و زر اور جائیداد تو کجا ایک صحابی رسولﷺ نے اپنے مکہ سے آنے والے بھائی کو یہاں تک کہ دیا کہ میری دو ازواج ہیں اگر آپ نکاح کرنا چاہیں تو میں ایک کو طلاق دے دیتا ہوں۔حُکم محبوب خدا کے آگے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔
رحمت اللعالمینﷺ کا فرمان پاک ہے”تمہارا ایمان اسوقت تلک کامل نہیں ہو جاتا جب تک تم جو اپنے لیئے پسند کرتے ہواپنے بھائی کیلئے وہی پسند نہ کرو“(اوکماقال)۔انکی تعلیمات سے انحراف کر کے حُب رسولﷺ کا دعوٰی کرتے ہیں کیسا بھونڈا انداز ہے ہمارا۔اپنی اُمت سے اس قدر الفت تھی کہ فرمایا ”میرے کسی امتی کے پیر میں کانٹا چبھے تو اسکی مجھے بھی تکلیف پہنچتی ہے“(اوکماقال)۔تو کیا جب ہم اُمت حبیب خدا کو ایذا دیں گے ‘تفرقہ پھیلائیں گے تو انہیں دکھ نہیں پہنچے گا؟اور کیا انہیں دکھ پہنچا کر ہم سکون سے رہ سکتے ہیں؟کیا پھر رحمت خداوندی کا رُخ ہماری جانب سے پھر نہ جائے گا؟احادیث‘سنتوں اور قرآنی تعلیمات کے محض قولی اقرار سے ہمارا ایمان مکمل ہو جائے گا؟فرمان الہی ہے:”نیکی یہ نہیں کہ تم نے عبادت کے وقت اپنا منہ مشرق کی یا مغرب کی طرف کرلیا‘بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ ایمان لائیں اللہ پر‘آخرت کے دن پر‘فرشتوں پر‘اللہ کی کتابوں پراور اسکے نبیوں پراور اللہ کی رضاکے لیے اپنا مال خرچ کریں رشتہ داروں پر‘محتاجوں پراور غلام کو آزادی دلانے پراور زکوتہ ادا کریں اور جب کوئی عہد کریں تو اسے پورا کریں اور کوئی مالی پریشانی ہویا جسمانی تکلیف اور جہاد میں صبر کریں اور ایسے لوگ ہی سچے اور پرہیزگار ہیں“۔ہم نے یہ ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا تھا اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کے واسطے ہمیں زبانی جمع خرچ کے بجائے صدق دل سے اسی کلمہ پر ایک ہونا ہوگاوگرنہ ابلیس اور اسکے گماشتے ہمیں تتربتر کردیں گے۔
ذوق نظر اور قوتِ مشاہدہ سے محروم لوگ ہمیں لسانی و علاقائی حُب کا درس دیتے ہیں جو کہ ہمارے وجود کیلئے کسی زہر میں بجھی ہوئی تیزدھارتلوار سے کم نہیں۔بقول شاعر
اِن تازہ خداﺅں میں سب سے بڑا وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
فارسی مصرعہ ہے”ہرملک ملک مااست کہ ملک خدای مااست“ترجمہ:مسلمان جہاں رہے وہی اس کا وطن ہے۔لہذا وہ دنیا کہ کسی خطہ ونسل سے تعلق رکھتا ہو مسلمان قوم کا فرد ہے۔اللہ سے امان طلب کرکے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جنابِ مرزا کا فلسفہءوطن تو خود ان کے سندھی ہونے کی حمایت بھی نہیں کرتا۔کیونکہ ان کے اجداد بھی باہرسے تشریف لائے تھے۔اور اگر اس سلسلے کو پسِ منظر تک دیکھا جائے تو بنی نوعِ انسان کے باپ حضرت آدم بھی تو آسمان سے تشریف لائے تھے ۔مقامی نہ تھے۔مگرکیا کیجئے فہم و ادراک کسی کسی کے مقدر میں آتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انڈیا سے آنے والے مسلمان بھائیوں کو بھی اندازِفکر بدلنا ہوگا۔
رہ گئی بات سیاسی مفادات کی جنگ کی تو اب ہمارے امراءکو استغفار کرنا چاہیے ۔عوام ان کے ذاتی مفاد کی بھٹی میں سلگ رہے ہیں۔کراچی کے طول وعرض میں آگ لگی ہے۔انسان کا خون ارزاں ہوگیا ہے۔ایک سال کے اندر 14صد افرادظلم و تشدد کے واقعات میں دم توڑ گئے۔صرف جولائی 2011میں 350افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔سینکڑوں موٹرسائیکلوں‘گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔اور خون کی اس بہتی گنگا میں سٹاک ایکسچینج کا سانس اکھڑنا لازمی امر ہوگیا اور کراچی سٹاک ایکسچینج کی مجموعی مالیت میں 6.7فیصد کمی واقع ہوئی۔
کراچی ملک کا 60فیصد ریونیو پیدا کرتا ہے۔ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اگرملک بچانا ہے تو کراچی بچانا ہوگا۔وگرنہ سب کچھ غارت۔مسائل کا تجزیہ کرنے بعد اب صلاح کی نیت سے چند نکات پیش خدمت ہیں۔اول:تمام سیاسی جماعتوں کو کھلے دل سے ایک دوسرے کا ووٹ بینک تسلیم کر لینا چاہیے۔دوم:کراچی کو کسی ایک جماعت کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے انتظامی نقطئہ نظر سے مختلف یونٹس(یا اضلاع) میں تقسیم کر دیا جائے۔اور انتظام وہاں کی منتخب پارٹی کے پاس ہونا چاہئے ۔سوم:تمام سیاسی جماعتوں خصوصًا

mqm,anp,ppp

کو اپنے کارکنان کی کانٹ چھانٹ کرنی چاہیے اور اگر کوئی شر پسند عناصر ان کی جماعت میں شامل ہیں تو انہیں فوراًسے پہلے گرفتار کروایا جائے۔چہارم:عدلیہ‘کچہری‘پولیس اور جیلوں کے نظام کو شفاف بنایا جائے۔تمام اداروں میں سیاسی مداخلت کی بیخ کنی کی جائے۔اگر ان چیدہ چیدہ عوامل پر بھی عمل کر لیا گیا تو ءانشااللہ کراچی میں امن قائم ہوجائے گا۔
آخر میں فوجی آپریشن کے آپشن کی بات ہو جائے تو بہتر ہو گا۔آرمی ایکشن کبھی کسی مسلئے کا حل نہیں نکال سکتے۔اگر اتحادی کراچی آپریشن پر ہی مصر ہیں تو قبل از آپریشن عوام سے اس کے متعلق رائے لی جائے ۔اور اس مشکل مرحلے کو دیانت داری سے انجام دینے کے ساتھ ساتھ نتائج بھی عوام کے سامنے لائے جائیں ۔کیونکہ عوامی تائید وحمایت کے بغیر آپریشن فاش ترین غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔اور مجھے یہ عرض کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر عوامی امنگوں کے برعکس کوئی بھی قدم اُٹھایا گیا تو پاکستان کو فالج کا اٹیک ہو سکتا ہے(اللہ محفوظ رکھے امین)۔
آئیے ہم سب مل کر یوم آزادی کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم آج کے بعد مہاجر‘سندھی ‘بلوچی ‘پٹھان یا کچھ اور بن کر نہیں فقط مسلمان اور پاکستانی بن کر سوچیں گے ‘عمل کریںگے ۔خواہ ہمارا تعلق کسی بھی رنگ ‘نسل اور مذہب و فرقہ سے ہو۔اورکسی بھی جماعت میں اپنی شمولیت کو لسانی علاقائی‘گروہی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر نہیںبلکہ حُب اسلام‘محبت ِوطن اور انسانیت کے ساتھ مشروط کریں گے۔وگرنہ۔۔
اصولِ قدرت ہے جہاں پھوٹ پڑتی ہے وہاں سے رزق اٹھا لیا جاتا ہے ‘رحمت و برکت ختم ہوتی ہے اور بالاآخر وہ قوم بے رحم سرداروں اور دشمنوں کے ہاتھوں ذلیل و رسوا ہو کر رہ جاتی ہے۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved