اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

سمیع اللہ خان

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ssbox381@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-07-2011

 محرومیوں سے سرائیکستان تک‘خیبر سے بلوچستان تک

کالم ۔۔۔------------ سمیع اللہ خان

ا
آپ تاریخ عالم کے اوراق کھول کر دیکھ لیجئے ۔جس ملک کی بھی تحریک آزادی یا صوبائی تقسیم کے باب کو زیر نظر لائیں گے اس کی عمارت کی وجوہات محرومیوں ‘اداسیوں ‘اور ظلم و ستم کو ہی پائیں گے۔آزادی وعلیحدگی کے جتنے بھی معتبر رہنما گزرے ہیں سب نے قوم کو پسماندگی سے نکالنے ‘غربت مٹانے ‘اور غضب شدہ حقوق حاصل کرنے کیلئے علم بغاوت بلند کیا۔فرق اتنا ہے کہ کسی نے لسانی تو کسی نے نسلی ‘علاقائی یا مذہبی بنیاد پر اپنا حق مانگا۔اگر تعصب کا چشمہ اُتار کر دیکھا جائے تویہ بات ایک کھلی حقیقت بن کر سامنے آتی ہے کہ ہر زبان‘نسل‘یاعلاقہ کا اپنا کلچر‘تہذیب و ثقافت اور فلسفہ حیات ہے۔جسے اگر دینی سانچے میں بھی ڈھال لیا جائے(جو کہ بحیثیت مسلمان ہمارا فرض عین ہے) تو آج تک کوئی ایسا الہامی مذہب و فقہ معرض وجود میں نہیں آیا جوان کے حقوق کو اجتماعیت کے نام پر غضب کرنے کا درس دیتا ہو‘جو ان کی محرومیوں اور پسماندگیوں کو ان کا نصیب قرار دیتا ہو‘جو ان کی خون پسینے کی کمائی (ٹیکس و دیگر ریونیو)کو ان پر خرچ کرنے میں مانع ہو۔جوآمر مرکز کی شاہ خرچیوں کو ان کی فلاح و بہبود پر ترجیح دیتا ہو۔جو ان کے بھوک سے بلکتے بچوں کو روٹی کا لقمہ دینے کی ممانعت کرتا ہو۔جو ان کے مریضوں کی حصولِ علاج کی خاطر بسوں ‘ریڑھیوں اور گدھا گاڑیوں پردورانِ سفر واقع اموات کو شہادت کا درجہ دیتا ہو۔جو ان کے برہنہ بچوں کو قلم ولباس کی فراہمی پر اعتراضات کرتا ہو۔نہیں نہیں ایسا دین و فلسفہ ماسوائے ظالم و جابر اور انا پرستوںومفاد پرست سیاستدانوں کے دماغوں کے کہیں وجود نہیں رکھتا ۔
آپ 2008 کے مابعد کے اخبارات کی شہ سرخیاں اُٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو سوائے شوشوں‘مفروضوں‘ڈھکوسلوں ‘فسادات و قانون کی بکھرتی دھجیوں کے سوا کچھ نہ ملے گا۔یہ تمام بیانات مختلف شعبہءہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہوں گے۔جن میں تخت نشیں و پردہ نشیں برابر کے شریک ہیں۔اگر difference ہے تو فقط بنچوں اور چہروں کا۔ ان کی زبان ‘لب ولہجہ اور منزل مقصود ایوان سے ایوان تک ہی محدودہے۔معاشی بقاءکے وسائل محدود کر دینا ان کی سرشت میں شامل ہے۔
بمشکل ایک ہی عشرہ گزرہ ہو گا کہ جب جنوبی پنجاب کے باسیوں کے رستے زخموں پر صرف اس لیئے نمک چھڑکا گیا کہ اس سے ڈانوا ڈول تخت کی بادِ مخالف کمزور و ناتواں ہوجائے گی اور اقتدار کا جہاز دو چار میل کا سفر پُرسکون طریقے سے طے کر لے گا۔اس سیاسی شطرنج میں ہار جیت کسی کی ہو گی اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔لیکن اس فضا سے جنوبی پنجاب کو ”کُبے والی ضرور لگ گئی ہے“۔صوبے کا نام سرائیکی صوبہ ہو یا کوئی اور بہرطور اس کی زبان سرائیکی ہی ہو گی۔لیکن اس فضول بحث سے کج نظر اگر دنیا کے دوسر ے ممالک کی جانب نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا میں 35صوبے ہیں ۔چائنہ کی 1ارب اور 35کروڑکی آبادی کیلئے 23صوبے اور پانچ ریاستیں ہیں‘ترکی کی 7کروڑ اور 81لاکھ آبادی کیلئے تقریبا25صوبے ہیں‘بنگلہ دیش کی 15کروڑ85لاکھ آبادی کے واسطے نو صوبے ہیں‘افغانستان کی ساڑھے تین کروڑ آبادی کیلئے 34صوبے ہیں‘جرمنی کی 8کروڑ آبادی کیلئے سولہ صوبے ہیں‘سوئٹرز لینڈ کی 65لاکھ آبادی کیلئے 26صوبے ہیں‘اور ہمسایہ ملک ایران کی ساڑھے چھ کروڑ آبادی کی خاطر قریبًا34صوبے ہیں تو پھر پاکستان کی 18کروڑ سے زائد آبادی کیلئے چار صوبوں پر ہی کیوں اکتفا کیا جاتاہے؟شاید اس لیئے کہ ہماری عوام اور سیاست ابھی میچور نہیں ہوئے۔
جبکہ ماہرین کے مطابق نئے صوبوںکی اشد ضرورت ہے۔لیکن سیاسی افراتفری میں یہ تحاریک گُم ہوتی نظر آتی ہیں۔کیونکہ قانون دانوں کے مطابق حکومت کو قومی اسمبلی و سینٹ میں دوتہائی جبکہ پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا ہو گی۔جس کے لئے حکومت کو پہلے سٹیپ پر پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنا تھی ۔جسے حکومت ق لیگ کے ذریعے قرارداد پیش کروا کے مزاحمت کے شدید زخموں سے چُور ہے۔لیکن مبادا اس کا مقصد پورا ہو گیا ہو۔
اگر سیاسی چال بازیوں سے ہٹ کر بات کی جائے تو یہ مشورہ دل کو لگتا ہے کہ چاروں صوبوں کے معزز افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔جو ملک میں کسی بھی تعصب سے بالا تر ہو کر انتظامی‘سماجی ‘معاشی ‘زرعی ‘صحت و تعلیم اوردیگر سہولیات ِحیات کو سامنے رکھتے ہوئے نئے صوبوںکی حدبندیوں اور قیام کے حوالے سے غور کریں اور اپنا تجزیہ پیش کریں۔تاکہ پارلیمنٹ مناسب وقت پر بالغ فیصلہ کرے ۔کیونکہ نئے صوبوں کا قیام ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔خاص طور پر بہتر نظم و نسق چلانے کیلئے پنجاب کے جنوبی اضلاع بشمول بھکر‘ڈیرہ اسماعیل خان ومیانوالی پر مشتمل ایک صوبہ جس کا دارلحکومت صوبے کے وسط میں ہو‘ااور ہزارہ صوبے کا قیام ناگریز ہو گیا ہے۔جبکہ بلوچستان کے دو صوبے بنانے سے وہاں نسلی فسادات میں انشااللہ کمی آئے گی۔نیز فاٹا کے عوام کی خواہش کے مطابق اسے بھی صوبے کا درجہ دینا ہو گا تاکہ خیبر سے بلوچستان تک بھی سکون کی فضا قائم ہو سکے۔اور کراچی و حید ر آباد پر بھی غور کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ وہاں کے مکین اعتراض نہ کریں۔
اِن نازک حالات میںجب ملک کو غربت ‘بے روزگاری ‘مہنگائی و لوڈ شیڈنگ کے عذاب مسلسل کا سامنا ہے اورکراچی ‘مالاکنڈ‘سوات وزیرستان‘بلوچستان و خیبر پختون خواہ دہشت گردی‘بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ کی لپیٹ میں ہیں اگر سیاسی نیزے ترکش سے باہر نکالے جاتے رہے تو ملکی سلامتی کا جنازہ نکل سکتا ہے۔لہذا عوام سمیت امراءکو اپنے مزاج میں تبدیلی لانا ہو گی۔ہمیں نئے صوبے بنانے چاہیئے ضرور بنانے چاہیئے ۔اس سے ما یوسیاں کم ہو ں گی ‘نفرتیں دم توڑ جائیں گی لیکن ہمارا نصب العین مسائل کا حل ہونا چاہیئے نہ کہ نسلی و لسانی تعصبات۔اس واسطے محرومیوں سے سرائیکستان تک کی تحریک کو غلط موڑ دینا ہرگزملکی مفاد میں نہیں ہو سکتا۔اس سے قبل کہ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت“کی مثل ہم پر صادق آئے ہمیں اور ہمارے تما م سیاستدانوں کو منافقت ‘مفاد پرستی ‘لسانیت ‘صوبائیت اور پارٹی نامی درندے کے حصار سے نکل کر پاکستانی اور مسلمان بن کر سوچنا ہو گا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved