پھول صحرا میں کِھلا ہے کوئی
دِل میں پھر آن بسا ہے کوئی
اِک تری دید کی خاطر جاناں !
تیرے رستے میں کھڑا ہے کوئی
یہ اندھیروں کا نگر ہے ، لیکن
دِل میں روشن سا دِیا ہے کوئی
شہر کی اجڑی ہوئی گلیوں مِیں
کسی بے کس کی صدا ہے کوئی
صبح کا چہرہ نظر آجائی
شام سے محوِ دُعا ہے کوئی |