اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:-                        tariq@albahar.ae 

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت18-02-2010

منز ل

کالم:۔ طا رق حسین بٹ

 
اگر ہم تخلیقِ پا کستان کا گہری نظر سے جا ئیزہ لیں تو حیرا نگی کے سوا کچھ بھی ہما ر ے ہا تھ نہیں آتا، ایک ایسی قوم جو محکومی کی زنجیر وں میں جکڑی ہو ئی تھی ،اند ھیر و ں میں بھٹک رہی تھی، اپنا تشخص کھو چکی تھی اور پستی کی انتہا ﺅ ں کو چھو رہی تھی وہی قو م خوا بِ غفلت سے جا گتی ہے تو آزا دی کی جنگ ایسی شا ن سے لڑ تی ہے کہ تا ریخ عا لم کو اس پر پر رشک آ جا تا ہے۔ مقتل گا ہو ں کو سجا نا خا ک و خون کے دریا کو عبور کرنا اور سو ر ما ﺅ ں کی طرح مو ت کو گلے لگا نا اس کے بیٹوں کا فخر و ناز بن جا تا ہے ۔ زمانہ قدیم میں آزا دی کی ساری جنگیں علا قا ئی اور لسا نی بنیا دو ں پر جنم لیتی تھیں اور انہی بنیا دو ں پر ملک تشکیل پا تے تھے لیکن تخلیقِ پا کستان اس جہت سے سب میں منفرد ہے کہ اس کی بنیاد دو قو می نظر یہ پر رکھی گئی تھی۔ اگر میں یہ کہو ں کہ علامہ اقبال کا خطبہ الہ آبادقیا مِ پاکستان کی بنیاد بنا تھا تو بے جا نہ ہو گا قا ئدِ اعظم محمد علی جنا ح جو متحد ہ ہندو ستان کے سب سے بڑے نقیب تھے علا مہ اقبا ل کی بے پناہ کو ششو ں کے باعث کار وا نِ آزا دی کی قیا دت کے لئے آما دہ ہو ئے تھے ۔ان کے کردار کی عظمت، دلا ئل کی کاٹ اور سچا ئی کی قوت نے بڑے بڑ ے قائد ین کے سحر کو ہوا میں تحلیل کر دیا ا اور آزا دی کی جنگ کو ایسا جو ش اور جذبہ عطا کر دیا جس کے سا منے ہر چیز خس و خا شا ک کی طرح بہہ گئی ۔ انگریزو ں کی مکا ریو ں اور ہندوں کی عیا ریو ں کے درمیان قا ئدِ اعظم نے جس فہم و فرا ست سے اپنی قوم کو فتح سے ہمکنار کیا وہ آج بھی معجزا تی رنگ لیے ہو ئے ہے۔ کیا یہ چیزبا عث حیرت نہیں کہ ایک ایسی قوم جس کے پاس نہ فو جیں تھیں نہ مسلح جدو جہد تھی نہ شدت پسندی تھی نہ وسا ئل تھے نہ مذہبی جنو نیت تھی اور نہ ہی بے ر حم عدا وتو ں کی شمشیرتھی اس نے انتہا ئی مختصر عرصے میں انگریزو ں اور ہند و و ں کی متحدہ قوت کوشکستِ فا ش سے دو چا ر کر د یا ریا ستی جبر کو گھٹنے تیکنے پر مجبو ر کر دیا اور اپنے لئے ایک علیحد ہ وطن کے قیام کو حقیقت کا روپ عطا کر دیا َ۔سچ تو یہ ہے کہ تخلیقِ پاکستان کا عظیم ا لشان کار نامہ سر فرو شو ں کی جرا ت، حریت ، شجا عت ، جدو جہد اور جمہو ریت سے بے پنا ہ عشق کا نا در شا ہکار ہے بقو لِ اقبال
جب عشق سکھا تا ہے آدابِ خود آگا ہی۔ ۔ کھلتے ہیں غلا موں پر ا سرارِ ِ شہنشا ہی
عطا ر ہو رومی ہو، رازی ہو غزا لی ہو۔۔۔ کچھ ہا تھ نہیں آتا، بے آہِ سحر گا ہی
آزا دی کے متوا لو ں کے پا س فقط نظریہ تھا اور اپنے نظریے کی سچا ئی کی بنیا د پر انھو ں نے پر امن جدو جہد کی راہ اپنا ئی تھی لیکن انھیں پھر بھی ریا ستی جبر کا نشا نہ بنا یا گیا لیکن یہ جبر بھی ان کے اندر مسلح جدو جہد کے رحجا ن کو پر وان چڑ ھا نے میں کامیا ب نہ ہو سکا۔ ووٹ کی قوت سے پا کستان کا قیام ہی مسلما نو ں کی منزل تھی اور ان کے قائد نے انھیں اس راہ سے ایک لمحے کے لئے بھی بھٹکنے نہیں دیا اور اپنی بے مثل قیا دت سے وہ کا ر نا مہ سر انجا م دے دیا جس پر دنیا آج بھی حیرا ن و ششدر ہے۔ قا ئد کی اس بے مثل ، پر امن اور جمہو ری جدو جہد کی پو ری دنیا معتر ف ہے اورحد تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو قا ئد کے شدید ترین مخا لفین میں شمار ہو تے تھے انھیں بھی آخرِ کار قا ئد اعظم کی تا ریخ ساز جد و جہد کو خرا جِ تحسین پیش کرنا پڑا کیو نکہ یہی سچ تھا۔ آئیے اس سچ کی ایک جھلک پنڈٹ جوا ہر لال نہر و کی بہن وجے لکشمی پنڈت کی زبا ن سے سنتے ہیں۔
اگر مسلم لیگ کے پاس ایک ہزارابو ا لکلا م ا آزاد اور ایک سو گا ندھی بھی ہو تے لیکن کا نگرس کے پا س صرف ایک محمد علی جناح ہو تے تو ہندو ستان کبھی تقسیم نہ ہو تا
۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو پاکستان دنیا کے نقشے کو اپنے وجود سے نئی خو بصو رتی عطا کرتا ہے قا ئدِ اعظم محمد علی جنا ح اس کے پہلے گو ر نر جنرل بنتے ہیں لیکن ان کی رحلت کے بعد محلا تی سا ز شو ں کا آغا ز ہو جاتا ہے حکو متوں کی اکھا ڑ بچھاڑ روز مرہ کا معمول بن جا تا ہے جمہو ری نظام کمزو ر ہو تا چلا جا تا ہے۔ سا زشی عنا صر مضبو ط سے مضبو ط تر ہو تے جا تے ہیں لہذا سا زشو ں کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہو تا چلا جا تا ہے اور تخلیقِ ِ پاکستان کے سارے مقا صد پسِ پشت چلے جا تے ہیں ۔ ۸۵۹۱ میں جنرل ایو ب خا ن ملک پر پہلا ما رشل لاءنا فذ کر دیتے ہیں اور وہ قوم جس نے وو ٹ کی قوت سے تحلیقِ پا کستان کا محیر ا لعقول معجزہ سر انجام دیا تھا اور جس کی جمہو ری جدو جہد پورے عا لم کے لئے ایک مثا ل بنی تھی اسے آمریت کی بے رحم بر بر یت کے سا ئے میں زندہ رہنے پر مجبو ر کر دیا جا تا ہے۔ ما ر شل لا ﺅ ں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جمہو ری نظا م کی بسا ط لپیٹتا رہتا ہے اور یو ں وہ جمہو ری روا ئیت جو ہما ر ے رگ و پہ میں خو ن کی مانند گردش کرتی تھیں اسے تہہ و با لا کر کے آمریت کی سیاہ را ت پا کستانی قوم پر مسلط کر دی جا تی ہے لیکن وہ قوم جس کا خمیر جمہو ری جدو جہد کے اعلی و ارفع اصو لو ں سے مزین تھا اور جس نے قا ئدِ اعظم کی ولولہ ا نگیز قیا دت میں جمہو ریت کی بے مثا ل جنگ لڑی تھی وہ بھلا ان طا لع آزما ﺅ ں کو کہا ں بردا شت کر سکتی تھی لہذا ۸۶۹۱ میں ذو لفقار علی بھٹو کی قیا دت میںعوا می تحریک نے ایو ب خان کی آمریت کو خس و خا شا ک کی طرح حوا لے دریا کر دیا اور جمہو ری انقلاب کا وہ سورج طلوع ہو ا جس کاخواب علامہ اقبال اور قائدِ ا عظم نے دیکھا تھا۔
۵ جو لا ئی ۷۷۹۱ کو جنرل ضیا ا ل لحق نے ایک دفعہ پھر منتحب وزیرِ اعظم ذو لفقار علی بھٹو کی آئینی حکو مت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ سیاست کی نئی صف بندی ظہو ر میں آ ئی۔ ذو لفقار علی بھٹو مار شل لا کے خلاف ڈٹ گئے آئین اور پارلیمنٹ کے تقدس کی خا طر پھا نسی کے پھندے پر جھو ل گئے اور یو ں جمہو ری روا یت کی آبیا ری اپنے لہو سے کر کے جمہو ری جدو جہد کو نئی تو انائی اور طا قت عطا کر گئے ۔ پی پی پی کے جیا لے اپنے قا ئد کے اتباع میں دارو رسن کو چو متے ہیں اپنی جا نوں کا نذرا نہ پیش کرتے ہیں جمہو ریت سے وفا ﺅ ں کی نئی داستان رقم کرتے ہیں اور سرِ دار جئے بھٹو کہنے کی انو کھی رو ایت کی دا غ بیل ڈا ل کر بھٹو ا زم کا نیا فلسفہ تخلیق کر تے ہیں۔ذو لفقار علی بھٹو جمہو ری اور غیر جمہو ری رویو ں کے در میا ن حدِ فا صل بن جا تے ہیں اور جمہو ری شمع کو اپنے لہو سے روشن اور تا بناک بنا کر امر ہو جاتے ہیں۔
پا کستانی قوم اپنی تخلیق اور اپنے مزا ج میں با لکل منفرد ہے لہذا اس کا موا زنہ دو سری ا قوا م سے کر ناغیر منا سب ہے اگر ہم اسلا می دنیا میں جمہو ری روا یا ت کو تلا ش کر نے کی کو شش کریں گے تو ہمیں ما یو سی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسلا می دنیا میں شہنشا ہیت اور آ مر یت کے سوا ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا لہذا ان مما لک میں جمہو ری رو یو ں کی تلا ش بے سود ہے پا کستان کا قیا م چو نکہ جمہو ری جدو جہد کا ثمر ہے لہذا جمہو ریت ہما ر ے رگ و پہ میں ہے ہما رے خون میں ہے ہما رے فکر و عمل میں ہے اور یہ سوچ ہم سے کو ئی نہیں چھین سکتابے شمار شب خو نو ں کے با وجو د بھی قو م کی جمہو ری سو چ کو شکست نہیں دی جا سکی اذیتیں ،صعو بتیں، مصا ئب اور آزما ¾یشیں پا کستانی قوم کی جمہو ریت سے محبت کو کم نہیں کر سکیں اور جب یہ طے ہے کہ جمہو ریت ہی اس ملک کا مقدر اور منزل ہے تو پھر مہم جو اور انکے حواری آئینی حکو متوں پر شب خون کیو ں مارتے ہیں
محترمہ بے نظیر بھٹو کی عظیم قربا نی نے مار شل لا ﺅ ں کے باب کو بڑی مظبو طی سے بند کر دیا ہے ا گر کسی کو میری با ت میں شک ہے تو وہ محترمہ کی شہا دت کے پہلے چار دنو ں کے ردِ عمل کا بغور جا ئزہ لے لے ساری بات وا ضح ہو جا ئے گی کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان چا ر دنو ں کے اندر ریا ست اپنا وجود کھو چکی تھی۔یہ تو آصف علی زردار ی کی پا کستان کھپے کی وہ جرا ت مند صدا تھی جس نے ریا ست کو دو با رہ وجود بخشا تھا وگرنہ ریا ست تو کہیں بھی با قی نہیں رہی تھی اگر کچھ طا قتیں یہ سمجھتی ہیں کہ آئینی حکو مت پرشب خون ما ر کر وہ شہید بی بی کی قر بانی کو را ئیگا ں کر دیں گی تو وہ شدید غلطی پر ہیں جمہو ریت کے متوا لے اب ایسی کسی انہو نی کو ہو نے نہیں دیں گے۔ بی بی کی قربا نی نے عوا م کو مار شل لاءکے سا منے ڈٹ جانے کا جو عزم عطا کر دیا ہے اسے کو ئی شکست نہیں دے سکتا جمہو ریت پر شب خون مارنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے۔ فو جی جرنیل سیا سی اداکار طا لع آزما صحا فی اور مہم جو عدلیہ کے شب خون کاخواب دم تو ڑ چکا ہے ۔بی بی کی للکار اسکا عزم اسکا لہو اور شہا دت ہی ابدی سچا ئی ہے اور سچا ئی کو کو ئی شکست نہیں د ے سکتا کیو نکہ سچا ئی شکست سے ما ورا ہو تی ہے ۔

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team