اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

 

تاریخ اشاعت25-03-2010

نوجوان نسل کو اس تباہی سے بچا لیجئے!

ایڈیٹرپک

کسی صاف ستھری اور پاکیزہ قوم کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہوتی ہے کہ اسے فحاشی اور عریانی کی راہ پر  ڈال دیا جائے۔ پاکستانی قوم کے خلاف اس سازش کے تانے بانے اس وقت بنے گئے جب فحاشی اور عریانی کو فروغ دینا جنرل (ر) پرویز مشرف کی سیاسی ضرورت تھی کیونکہ جہاں ان پر امریکہ کی طرف سے یہ دبائو تھا کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دل و جان کے ساتھ امریکہ کا ساتھ دیں وہیں یہ دبائو بھی تھا کہ پاکستانی عوام کو روشن خیالی (فحاشی و عریانی) کی راہ پر ڈال دیا جائے تاکہ لوگوں کا جذبہ ایمانی کمزور ہو اور وہ ان لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جو امریکہ کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ اس مقصد کے لئے امریکہ نے نہ صرف پاکستانی میڈیا کا سہارا لیا بلکہ بعض کہنہ مشق صحافیوں کوبھی طرح طرح کی ترغیبات دیں۔ پاکستانی معاشرہ ویسا تو نہ بن سکا جیسی امریکہ کی خواہش تھی لیکن نوجوان طبقے میں فحاشی و عریانی کے جراثیم سرایت کر گئے اور یہ سلسلہ آگے ہی آگے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستانی قوم کا اخلاق تباہ کرنے کے لئے انڈیا کے تفریحی چینلز ہی کافی ہیں پاکستانی عوام ان چینلوں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ وہ ان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں گھروں کی خواتین' نوجوان لڑکیاں اور لڑکے سٹار پلس کے ڈراموں کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ جب تک رات گئے تک تمام ڈراموں کو دیکھ نہ لیں اس وقت تک انہیں قرار نہیں ملتا۔ اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ بچے اپنی گفتگو میں ہندی کے الفاظ بولنے لگے ہیں اور ان الفاظ کے مفہوم کو بھی سمجھتے ہیں بعض انڈین چینلز ہندی فلموں کے لئے مخصوص ہیں اور ہندی فلموں میں کیا کچھ دکھایا جاتا ہے اس بارے میں ہر شخص جانتا ہے۔ نیم برہنہ اداکارائیں اداکاروں کے ساتھ ایسی ایسی شرمناک حرکتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں جن کے بارے میں آج سے دس بارہ سال پہلے تک پاکستانی بچے اور بچیاں کچھ نہیں جانتے تھے اب تو ان فلموں کی مہربانی سے پاکستانی بچے اور بچیاں یہ تک جانتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں کیا کچھ ہوتا ہے اور بسا اوقات گھر کے بڑوں کی موجودگی میں ایسے سوالات پوچھ بیٹھتے ہیں جن کے جوابات نہ کوئی ماں دے سکتی ہے اور نہ باپ۔
انڈین اداکارائوں کی دیکھا دیکھی پاکستانی لڑکیوں کے لباس بھی مختصر سے مختصرہوتے جارہے ہیں۔ مختصر اور چست لباس کی وجہ سے ان لڑکیوں کے جسمانی خدوخال پوری طرح واضح ہو رہے ہوتے ہیں لیکن ستم تو یہ ہے کہ ان بچیوں کے والدین نے بھی آہستہ آہستہ اس طرح کے لباس کو ذہنی طور پر قبول کرلیا ہے۔ درحقیقت کوئی بھی انڈین چینل اس قابل نہیں کہ اسے باپ اور بیٹی ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بنا اب کوئی چارہ نہیں کہ ان گنت گھروں میں باپ اور بیٹی اکٹھے بیٹھ کر ہندی فلمیں اور ڈرامے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
اور صرف انڈین چینلز پر ہی کیا موقوف اب تو پاکستان کے بعض نجی چینلز بھی ہندی چینلوں کے رنگ میں رنگے گئے ہیں اور بھرپور طریقے سے فحاشی و عریانی کا زہر نوجوان نسل کی رگوں میں منتقل کر رہے ہیں حالت یہ ہے کہ اب تو اشتہاری کمپنیوں کے اشتہارات بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتے جب تک ان میں فحاشی اور عریانی کا ٹچ نہ ہو۔ بلیڈ' ریزر اور سگریٹ خالصتاً مردانہ ضرورت ہیں لیکن ان کے اشتہاروں میں بھی کلیدی کردار لڑکی کا ہوتا ہے جو فحاشی اور عریانی کے ریکارڈ توڑ رہی ہوتی ہے۔
چینلز کے علاوہ موبائل فون کمپنیاں بھی نوجوان طبقے کے اخلاقیات کو تباہ کر رہی ہیں سستے ترین فون پیکج اور سستے ترین ایس ایم ایس پیکج کے ذریعے نوجوان نسل کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ رات رات بھر جاگیں نئے نئے بوائے فرنیڈز اور گرلز فرینڈز بنائیں اور سونے کی بجائے پوری پوری رات جاگ کر ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی صحت اور اخلاق تباہ کریں۔ اس وقت نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی غالب اکثریت ایس ایم ایس اور سستی فون کالز کے چکر میں پھنس چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں گھر کے کمروں میں' باتھ رومز میں' کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر حتی کہ راہ چلتے بھی یا تو موبائل سیٹ کانوں کو لگائے ہوتی ہیں یا ایس ایم ایس کر رہی ہوتی ہیں۔ دوسری جانب نوجوان لڑکے گھروں کے اندر' گھروں سے باہر دفاتر میں حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کسی کو ایس ایم ایس کر رہے ہوتے ہیں۔ ملکی نظام دیکھیے کہ بلوغت کی عمر اٹھارہ سال رکھی گئی ہے یعنی کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوان ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ گویا ریاست نے اس بات کو تو تسلیم کر رکھا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کا نوجوان لڑکا' لڑکی اچھے برے کی تمیز نہیں رکھتے لیکن دوسری جانب دس سے سترہ سال تک کے بچوں اور بچیوں کو بھی اس بات کی کھلی چھٹی ہے کہ وہ موبائل فون استعمال کرسکتے ہیں۔ ہماری رائے میں اگر اٹھارہ سال سے کم عمر کے نوجوانوں کے لئے سگریٹ کا استعمال قانوناً ممنوع ہے تو اس کے لے موبائل فون کا استعمال بھی ممنوع ہونا چاہیے۔
ایک طرف موبائل کمپنیاں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کے چکر میں ہماری نوجوان نسل کے اخلاقیات کو تباہ کر رہی ہیں تو دوسری جانب حکومت نے اس جانب اس لئے خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاکہ ان کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس حاصل کیا جاسکے گویا ریاست اور والیان ریاست خود اپنے ہاتھوں سے اپنی نوجوان نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موبائل فون کی کال اور ایس ایم ایس اتنے مہنگے ہوتے کہ جس کا بوجھ نوجوان نسل کی پاکٹ منی برداشت ہی نہ کر سکتی۔ ملک بھر کے دانشوروں' اہل سیاست' علماء کرام اور پارلیمنٹ کو مذکورہ بالا معاملات پر فوری توجہ مرکوز کرتے ہوئے ان کے سدباب کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team