اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-jawwab@gmail.com

Telephone:- 1-514-250-3200      

 

 

 

تاریخ اشاعت01-04-2010

شالا کوئی مسافر نہ تھیوے ، ککھ جنہاں تھیں بھارے ہوُ

ایڈیٹرپک

پردیسی ۔۔۔ ایک بندہ جو پرائے دیس چلا جائے۔ سب محبتوں، سب ناتوں، سب باتوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر۔ اپنی مرضی سے، اپنےپیاروں سے، اپنے یاروں سے دور۔ ایک ایسی سرزمین پر جہاں وہ تمام عمر ایک اجنبی رہے۔ لمحہ لمحہ جہاں اسے دیس کی یاد ستائے، اس کے دل کو کچوکے دے لیکن وہ اسیرِ بے قفس پھڑپھڑا تو سکے مگر اُڑ نہ سکے۔ عجب زندگی ہے پردیسی کی بھی۔ جہاں رہتا ہے وہاں جی نہیں سکتا اور جہاں جیتا ہے وہاں رہ نہیں پاتا۔ دو بیڑیوں کے مسافر کی طرح تمام عمر خواہشات کے توازن میں گزر جاتی ہے اور وقت آخر یہ فیصلہ بھی نہیں کرپاتا کہ سود ملا کہ زیاں۔ دھن بہت ظالم چیز ہے، دوستوں کو جُدا کردیتا ہے بندے کو ماں باپ سے، بھائی بہن سے، یاروں غمگساروں سے، انسان کی تمام عمر کی متاع تو یہی رشتے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دوستانے جو کچی عمر کے ہوں وہی پائیدار ہوتے ہیں۔ پردیسی تو وہ بدنصیب ہوتا ہے جو ایک مالی کی طرح تمام عمر پیار محبت کے ان بوُٹوں کو سینچ کر بڑا کرتا ہے اور جب ان کی چھاؤں میں بیٹھنے کا وقت آتا ہے تو ہاتھ جھاڑ کسی اور دیس کی طرف چل نکلتا ہے جہاں نہ کوئی یار نہ غمگسار۔ پھر اگر پردیسی سیانا ہے تو پرانے رشتوں، پرانے ساتھوں کویکسر بھول کر نئے رشتے، نئے ساتھی بناتا ہے وگرنہ دھوبی کا کُتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ ایسوں کی بدقسمتی ہوتی ہے کہ جب وہ دیس چھوڑتے ہیں تو ان کا دماغ ایک تصویر کھینچ لیتا ہے جس میں وہ تمام یادیں تمام باتیں، تمام منظر قید کرلیتا ہے۔ ماں بہنوں کا رونا، باپ، بھائیوں کے چہروں پر چھائی اُداسی، یاروں کی آنکھوں کی نمی۔ اس لمحہ موجود میں پوشیدہ تمام رشتے، تمام چاہتیں اس کے حافظے میں نقش ہوجاتی ہیں اور پھر تمام عمر وہ اس تصویر میں دوبارہ سے رنگ بھرنے کو بھاگتا رہتا ہے۔ پردیسی جب کبھی اُداس ہوتا ہے، زندگی کی دوڑ میں تھک جاتا ہے تو دل میں موجود اس تصویر کو دیکھ لیتا ہے۔ ماں باپ کی محبتیں، بھائی بہنوں کی چاہتیں، دوستوں کا خلوص، سب کچھ اسے پھر سے ہشاش بشاش کردیتا ہے۔ اجنبیوں کے ہجوم میں گھرا وہ ایک جزیرہ تخلیق کرلیتا ہے جہاں سکون ہوتا ہے، اپنے ہوتے ہیں۔۔۔ وہ اپنے جنہیں وہ کسی مجبوری، کسی خواہش کے نام پر چھوڑ آیا تھا۔ پردیس میں گزارا ایک ایک پل وہ اس انتظار میں کاٹتا ہے کہ کب وہ دوبارہ اس تصویر میں داخل ہوگا جو اس کی رگ جاں میں سجی ہے۔ کب پھر ان محبتوں، ان رشتوں کے درمیان ہوگا جن کی خوشبو اس کی یادوں کو معطر رکھتی ہے۔ یہاں تک بھی بات گوارا تھی کہ اسے ایک آسرا میسر ہے زندگی بیتانے کو۔ ایک سرہانہ حاصل ہے سر رکھ کر سو جانے کو لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی اور وہ دن آجاتا ہے جس کےا نتظار میں پردیسی نے مہ و سال گزارے ہوتے ہیں۔ وصل کا دن۔ اپنے یاروں سے، اپنے پیاروں سے ملنے کا دن۔ نجانے ایسا کیوں ہے کہ جس چیز کا تمام عمر انتظار کرتے رہو وہ کبھی ملتی ہی نہیں اور اگر مل جائے تو ویسی نہیں ملتی جیسی خواہش کی تھی۔ بلوچی داستان ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوبیاہتا دلہن کو دیکھا اور اس کے حسن پر مر مٹا۔ تمام عمر اس کے ہجر میں اسے یاد کرکے آہیں بھرتا رہا۔ جوانی بڑھاپے میں ڈھلی لیکن دل میں محبت اسی طرح جوان رہی۔ وہ لڑکی بھی سہاگن سے بیوہ ہوئی تو اہل علاقہ نے سوچا کہ عمر بھر کے ہجر کو وصل میں بدل دیا جائے۔ فریقین کو تجویز دی گئی تو دونوں نے بخوشی قبول کر لیا کہ صاحب کو جہاں عمر بھر کی چاہت سے وصل کی خوشی تھی خاتون کو اس بات پر ناز و فخر تھا کہ کسی نے تمام عمر ان کے عشق میں گزاری ہے۔ شب وصل جب دولہا نے گھونگھٹ اٹھایا تو اپنے سامنے ایک بُڑھیا کو دیکھ کر چیخ اُٹھا "تم کون ہو؟" بُڑھیا نے کہا "وہ جس کےپیار میں تم نے تمام عمر گزار دی۔" عاشق نے سر انکار میں ہلایا اور خیمے سے باہر نکل گیا کہ اس کا پیار تو اس لمحہ میں قید تھا جب اس نے پہلی بار اپنی محبوبہ کو دیکھا تھا۔ جانو یہی حال پردیسی کا ہوتا ہے۔ جب دیس واپس آتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ وہ تصویر جسے وہ سنبھالے پھرتا تھا، کب کی اُجڑ گئی۔ وہ چاہتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہو جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا لیکن گزرے ہوئے مہ وسال میں لوگوں نے اس کے بغیر جینا سیکھ لیا ہوتا ہے۔ زندگی کے ہمہ وقت آگے بڑھتے سفر نے وہ خلا پُر کردیا ہوتا ہے جو وہ چھوڑ کر گیا تھا اور اس نئی زندگی میں وہ ایک چاہی جانے والی تصویر تو ہے،ایک خوشگوارآواز تو ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اس میں کسی کا دوش بھی نہیں کہ جب وہ کسی بھی وجہ سے ان چاہتوں کو، ان رشتوں کوچھوڑ کر گیا تھا تو اس نے یہ سب کچھ قبولا تھا لیکن بہت مشکل ہے اپنے کئے کا الزام اپنے سر لینا۔ سو پردیسی بپھر جاتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کی، اپنوں کی بے مروتی کی، خلوص کی ناپائیداری کی باتیں کرتا ہے۔ جتنی شدت سے محبتوں کو یاد کرتا تھا، اتنی ہی شدت سے نفرتوں کی آبیاری کرتا ہے۔ سب سے بے زاری کا اعلان کرتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ دوری کی طرف پہلا قدم تو اُسی نے اُٹھایا تھا۔ اگر وہ ایک آسودہ مستقبل کے سراب کے پیچھے ایک چاہتوں بھرے جہان سے دیس نکالا نہ لیتا تو آج بھی اس تصویر میں موجود ہوتا جس میں بھرے رنگ وہ دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ایسا اکثر نہیں سوچتا پردیسی۔ مایوسی اور غصے میں بھرا وہ اس جہان کو چھوڑ کر دوسرےجہان کو اپنانے کی دُھن میں لگ جاتا ہے۔ ہر رشتہ، ہر ناتا توڑ کر پردیس کو دیس سمجھنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے اور پھر جب عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے تو وہی تصویر تمام عمر کے سود وزیاں کا حساب کرنے کو اس کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے اپنے تمام تر رنگوں اور حشرسامانیوں سمیت۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team