سورہ ھود کے
آخری رکوع میں آپؐ نے چند قوانین ارشاد فرمائے۔ ایک یہ کہ اس جہان
میں قانون مہلت کام رہا ہے‘ اس لئے بدکردار افراد یا اقوام کی گرفت
فوراً نہیں ہوتی بلکہ انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس
مہلت کے دوران اپنا رویہ درست کر لیں لیکن اگر وہ اپنا طرز عمل نہ
بدلیں، تو پھر ان پر عذاب آ جاتا ہے، کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان
کیلئے ایک آخری حد مقرر کر دی جاتی ہے کہ اگر وہ اسے بھی پار کر
جائینگے، تو ان پر فوراً عذاب وارد ہو جائیگا۔ جیسے صالحؑ کی قوم
کیلئے اونٹنی تھی کہ اگر وہ اسے گزند پہنچائیں گے، تو عذاب کی گرفت
میں آ جائینگے۔ یا لوطؑ کی قوم کیلئے فرشتے تھے، جو نوجوانوں کی صورت
میں انکے پاس آئے تھے۔ کہ اگر اس شہر کے لوگ ان پر بری نیت سے ہاتھ
ڈالنے کی کوشش کرینگے تو عذاب آ جائیگا۔ دوسرا قانون یہ ارشاد فرمایا
کہ جب کسی قوم یا بستی پر عذاب آ جائے، تو صرف وہ لوگ بچا لئے جاتے
ہیں جس کو آخری وقت تک برائی سے روکنے کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے
ہیں۔
’’114۔ تو کیوں نہ ہوئے ان قوموں میں جو تم سے پہلے ہو چکی ہیں ایسے
لوگ جن میں نیکی باقی تھی کہ وہ (دوسروں کو) فساد پھیلانے سے روکتے،
سوائے ان چند کے، جنہیں ہم نے ان میں سے (عذاب سے) بچا لیا، اور (ان
میں سے بیشتر) وہ لوگ (تھے، جو) ظلم و زیادتی کرنیوالے تھے۔ وہ جس
عیش (وعشرت) میں ڈالے گئے تھے اسی ڈگر پر چلتے رہے اور وہ مجرم تھے۔
(اس لئے انہیں سزا ملی) ۔ ’’اور آپؐ کا رب ہر گز ایسا نہیں کہ بستیوں
پر زیادتی کر کے انہیں ہلاک کرے‘‘ اور وہاں کے بسنے والے نیک ہوں۔‘‘
سورہ النساء میں فرمایا : ’’اﷲ تمہیں عذاب دیکر کیا کریگا، اگر تم (اس
کا) شکر کرو اور (اس پر) ایمان لاؤ اور اﷲ قدر شناس اور (سب کچھ)
جانتا ہے۔‘‘
سورہ ھود میں وضاحت ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آیا پیغمبر اور اس
کیساتھ ایمان لانے والوں کو عذاب سے بچا لیا جاتا رہا۔ حضرت نوعؑ اور
انکے ساتھی غرق ہونے سے بچا لئے گئے مگر انکا بیٹا، چونکہ کافروں کا
طرفدار تھا، ایمان نہیں لایا تھا اس لئے وہ غرق کر دیا گیا، حضرت لوطؑ
اور ان کا کنبہ بچا لیا گیا، مگر انکی بیوی نہ بچ سکی۔ کیونکہ وہ اس
بستی کے لوگوں کو جو برے کام کرتے تھے دل سے برا نہیں سمجھتی تھی۔
سورہ الاعراف میں یہود کی ایک بستی کا واقعہ بیان ہوا، جہاں کے لوگ
تین گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک وہ جو احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے
تھے‘ دوسرے ، وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کرتے تھے، مگر خلاف ورزی
کرنیوالوں کو روکتے بھی نہیں تھے‘ الٹا ان لوگوں کو روکتے تھے، جو
انہیں ایسا کرنے سے منع کرتے تھے۔ تیسرے، وہ جو خود خلاف ورزی نہیں
کرتے تھے اور ساتھ خلاف ورزی کرنیوالوں کو روکتے بھی تھے‘ جب اس بستی
پر عذاب آیا، تو صرف تیسرے گروہ کے بچا لئے جانے کا ذکر ہے۔ وہ جو
خود بچتے تھے مگر دوسروں کو منع نہیں کرتے تھے انکے بچائے جانے کا
ذکر نہیں۔