اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔17-02-2010

دعا کا جواب

سورہ فاتحہ میں یہ دعا سکھائی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے جو انعام یافتہ لوگوں کا راستہ ہے اور ان لوگوں کی راہ سے بچائے جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہوئے اور جو گم راہ ہیں۔
البقرہ میں پہلے فرمایا کہ:
یہ قرآن پاک جس کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں کوئی شک نہیں‘ متقین کے لئے ہدایت ہے گویا صراط مستقیم کی ہدایت کی جو دعا کی تھی‘ قرآن پاک اس دعا کا جواب ہے۔
اس کے بعد پہلے ہدایت یافتہ اور انعام یافتہ گروہ کی صفات بیان فرمائیں پھر ان لوگوں کی حالت بیان کی جو اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار ہیں۔ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ نہ خود ہدایت کی راہ کے متعلق سوچ سکتے ہیں نہ ہدایت کی بات سنتے ہیں۔ نہ حالات و واقعات کو دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔
آگے گم کردہ راہ لوگوں کے بارے میں ذرا تفصیل سے بیان فرمایا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو زبان سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے لیکن دل میں ایمان نہیں۔ مسلمانوں میں بیٹھ کر ان کی سی باتیں کرتے ہیں۔ مگر کفار کے پاس بھی جاتے ہیں اور وہاں جا کر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تھوڑا سا ایمان والوں کے ساتھ چلتے ہیں‘ پھر رک جاتے ہیں۔
اسی سورہ میں یہود کا بالتفصیل بیان ہے۔
یہ وہ قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور انعامات کھو بیٹھے بلکہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں بھی آگئے۔ ان کا طرز عمل بیان فرمایا تاکہ آئندہ آنے والی قومیں اس سے سبق حاصل کریں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کا مذاق اڑانا‘
۲۔ بے جا مطالبات کرنا‘ مثلاً من و سلویٰ حاصل ہے‘ لیکن ساگ اور پیاز وغیرہ مانگ رہے ہیں۔
۳۔ احکام الٰہی کا کوئی حصہ مان لینا اور کوئی چھوڑ دینا۔
۴۔ نبیوں کو قتل کرنا۔
۵۔ زندگی پر بہت حریص ہونا
۶۔ موت سے بھاگنا۔
سزا کیا ملی؟ ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی گئی۔ بندر اور سور بنا دیئے گئے۔
اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نچلا طبقہ بندروں کی طرح چاپلوسی اور نقال ہو جائے اور اوپر کا طبقہ سور کی طرح بے غیرت ا ور متکبر بن جائے۔
اس پر زعم یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور ہمیں صرف چند دن عذاب ہو گا۔