اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
Email:-ceditor@inbox.com

Telephone:-1-514-970-3200

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

<<<سابقہ مضامین<<<

تاریخ اشاعت:۔01-02-2011

دینی اور لا دینی حکومت

دینی حکومت میں حکمران خدا خوف‘ اہل اور امانتدار ہوتے ہیں۔ وہ اختیارات اور سرکاری خزانہ کو امانت سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنے آپ یا اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے استعمال نہیں کرتے۔ انکی حکومت لوگوں کیلئے رحمت ہوتی ہے۔
لادینی حکومت میں حکمران اپنے آپ کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ اختیارات اور سرکاری خزانہ کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں‘ خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھلاتے ہیں۔ ’’کھائو اور کھلائو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ سرکاری خزانہ کو حلوائی کی دکان سمجھ کر اس سے اقتدار کی فاتحہ پڑھنے میں لگے رہتے ہیں‘ مگر سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اپنا اقتدار مضبوط کررہے ہیں۔ اقتدار میں اندھے ہو جاتے ہیں اور مراعات کی ریوڑیاں اپنے پارٹی ورکروں ہی میں بانٹتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انکے پارٹی ورکرز انہیں گرنے سے بچالیں گے۔ انکی حکومت بے انصافی‘ ظلم اور نااہلیت پر مبنی ہوتی ہے اور عوام کیلئے عذاب بن جاتی ہے۔
لادینی حکومت میں منظّم پارٹی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مختلف خیال کے لوگ لالچ کے پیش نظر خودبخود اکٹھے ہو جاتے ہیں تاکہ لوٹ مار میں سے انہیں حصہ مل جائے۔ لیکن دینی حکومت کیلئے خدا خوف‘ باصلاحیّت اور دیانتدار لوگوں کو منظّم کرنا پڑتا ہے۔ دورِ اوّل میں صحابہؓ کرام ایسے ہی حضرات تھے۔ جب تک وہ موجود رہے‘ دینی حکومت قائم رہی‘ جوں جوں انکی تعداد کم ہوتی گئی‘ حکومت پر دنیاداروں کا قبضہ ہوتا گیا اور بالآخر خلافت‘ بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ دینی حکومت نہ بادشاہت تھی‘ نہ آمریت‘ یہ جمہوریت تھی مگر نیک اور دلیر لوگوں کی جمہوریت۔ ایسی جمہوریت نہ تھی جس میں بے اصول لوگوں کی چڑھ مچی ہو‘ اور جو حکومت کو بچوں کا کھیل یا لوٹ مار کا بازار بنا دیں۔
حالات خراب ہوں تو اندرونی اور بیرونی سازشیوں کو بھی موقع مل جاتا ہے۔ لوگوں کو کھانے کی عادت پڑ جائے تو وہ اپنا دین‘ ایمان اور ملک و ملّت بھی بیچ دیتے ہیں۔ کبھی جمہوریت آئی‘ کبھی آمریت‘ مگر لوٹ مار میں کمی نہ آئی۔ حکومت کے سربراہ اپنے ساتھیوں سے کھلے بندوں کہتے ہیں ’’پیسے بنالو‘‘ یا لوگوں کو یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ ’’رشوت کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے‘‘ اور اس طرح اپنی کارکردگی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
جب تک ایسے لوگوں کی پارٹی نہ بنے جو صحابہؓ کرام کے نقشِ قدم پر چلیں‘ حالات درست نہیں ہونگے۔ صرف چہرے بدلیں گے‘ حالات نہیں بدلیں گے‘ ضرورت ایسی پارٹی کی ہے جو سیاسی پارٹیوں کی موجودہ روایات کو توڑ دے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team