جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کے لیے اب آجاؤ

اسلام آباد(ویب ڈیسک) پنجاب کی غیر معروف سیاسی تنظیم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصاویر والے بینرز ملک کے 13 شہروں کی شاہراہوں پر آویزاں کردیئے، جن میں آرمی چیف سے مارشل لاء نافذ کرنے اور ملک میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

‘موو آن پاکستان’ نامی اس تنظیم کی جانب سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر والے بینرز لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا اور حیدرآباد کی مختلف شاہراہوں پر لگائے گئے ہیں۔

کراچی میں وزیراعلیٰ ہاؤس اور رینجرز ہیڈکوارٹرز کے درمیان واقع ٹریفک انٹرسیکشن پر لگائے گئے بینرز پر لکھا ہے کہ ‘جانے کی باتیں ہوئیں پرانی، خدا کے لیے اب آجاؤ’۔

واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں بھی مذکورہ تنظیم کی جانب سے ملک کے بڑے شہروں کی معروف شاہراہوں پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر والے بینرز لگائے گئے تھے، جن پر لکھا گیا تھا کہ ’جانے کی باتیں جانے دو۔’یہ بینرز آرمی چیف کے اس بیان کے بعد لگائے گئے تھے، جس میں انھوں نے ملازمت میں توسیع سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ آرمی چیف راحیل شریف کی مدت ملازمت رواں سال نومبر میں ختم ہوجائے گی۔

موو آن پاکستان کے مرکزی چیف آرگنائزر علی ہاشمی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس مہم کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہو اور ٹیکنو کرٹیس کی حکومت قائم کی جائے اور جنرل راحیل شریف خود اس حکومت کی سرپرستی کریں۔

دوسری جانب پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی انٹرسروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

البتہ تجزیہ نگار عامر رانا کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک میں بہت جلدی تبدیلی آنے والی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک میں کئی سیکیورٹی چیک پوسٹ اور اضافی سیکیورٹی کی موجودگی کے باوجود کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں سیمت 13 شہروں میں راتوں رات مذکورہ بینرز لگا دیئے گئے۔

ہاشمی کا کہنا تھا کہ یہ بینرز لاہور اور فیصل آباد کے شہروں سے ہٹا دیئے گئے ہیں۔

بینرز لگانے والی ‘موو آن پاکستان’ نامی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہے، جس کے چیئرمین محمد کامران ایک تاجر ہیں اور فیصل آباد، لاہور اور سرگودھا میں کئی اسکولوں اور کمپنیوں کے مالک ہیں۔

یہ تنظیم فروری میں اُس وقت عوام کی توجہ کا مرکز بنی جب اس نے آرمی چیف کی حمایت میں ملک بھر میں پوسٹرز اور بینرز لگائے، جن میں آرمی چیف سے ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور ملک سے کرپشن اور ہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مذکورہ تنظیم 5 ماہ قبل آرمی کو حکومت کا تختہ الٹںے کے لیے نہیں کہہ رہی تھی لیکن اِس وقت اُن کا کہنا ہے کہ ملک میں مارشل لاء کے نفاذ اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت تشکیل دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

ہاشمی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کی 40 دن تک ملک میں غیرموجودگی نے ثابت کردیا کہ ملک میں سیاسی حکومت نہیں چاہیے، ’جو لوگ ملک کی باگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں انہی کو ملک چلانا چاہیے۔‘

مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ ہم فیصل آباد، لاہور، کراچی اور سکھر میں ریلیاں نکالنے کے بارے سوچ رہے ہیں اور دوسرے مرحلے میں ہم عوام کو پاکستان اور قوم کی بہتری کے لیے آرمی چیف کی حمایت کرنے پر قائل کریں گے۔

اس حوالے سے تجزیہ نگار عامر رانا کا کہنا ہے کہ مذکورہ تنظیم کے پیچھے کچھ قوتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے ایک بار پھر آرمی چیف کے بینرز مختلف مقامات پر لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر ہمیشہ فوج کے قریب رہنے کے لیے ان کے اتحادی بن جاتے ہیں جبکہ اس طرح کے اقدامات سے ملک میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی لیکن ‘موو آن پاکستان’ کی مہم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ‘دال میں کچھ کالا ہے اور ملک میں کچھ ہونے والا ہے۔‘

دوسری جانب ٹی وی ٹاک شوز اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر بھی مذکورہ تنظیم کی مہم موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) نے اس حوالے سے کوئی بیان دینے سے گریز کیا ہے۔

وزیر مملکت برائے نجکاری محمد زبیر نے ایک نجی ٹی وی چینل پروگرام میں کہا تھا کہ آرمی چیف پہلے ہی اپنے ارادے بتاچکے ہیں کہ وہ ملازمت میں توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے، جنرل راحیل شریف فوج کے سربراہ ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی ہی طرح کے کسی پروفیشنل اور قابل فوجی عہدیدار کو عہدہ سونپیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانونی ماہرین ہی ان بینرز اور پوسٹرز لگانے والوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے بتاسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور وزیراعلیٰ سندھ کے میشر برائے اطلاعات و نشریات مولا بخش چانڈیو نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف ملکی مفاد میں بہترین فیصلہ کریں گے۔

انہوں نے آرمی چیف سے چاپلوسی کرنے والوں کی باتوں پر کان نہ دھرنے کی درخواست کی تھی۔

دوسری جانب پشاور پولیس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ ‘موو آن پاکستان’ تنظیم کی مہم بہت منظم طریقے سے چلائی جارہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ تنظیم کے سربراہ آرمی چیف سے پشاور آنے کی بھی درخواست کریں۔

پنھنجي راءِ لکو