برف پوش ماسکو اور برف شکن جمعہ خان ، تحریر:شاہد گھمن

اگرچہ روس میں گزشتہ پانچ برسوں سے آ جا رہا ہوں لیکن پاکستان سے ڈائریکٹ ماسکو یہ میرادوسراسفر تھا۔ گزشتہ پانچ برسوں میں میرا سفر لاہور سے سینٹ پیٹرز برگ کی طرف ہی ہوتا تھا کیونکہ میرا مسکن سینٹ پیٹرز برگ ہے۔ اس دوران میں سینٹ پیٹرز برگ سے ماسکو چار،پانچ مرتبہ جاچکا ہوں۔ پاکستانی ایمبیسی ماسکو میں ہونے کی وجہ سے روس میں مقیم ہر پاکستانی کو کسی نہ کسی کام سے پاکستان ایمبیسی تو ضرور جانا پڑتا ہے اسرار احمد اسسٹنٹ قونصلر کے عہدے کے طور پر پاکستان ایمبیسی ماسکو میں تعینات ہیں۔انتہائی ملنسار محب الوطن آفیسر ہیں روس میں مقیم ہر پاکستانی اگرچہ ایمبیسیڈرکونہ جانتا ہو لیکن اسرار احمد کو ضرور جانتا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ روس کے دور درازعلاقوں سے کوئی بھی پاکستانی کسی کام کی غرض سے ماسکو ایمبیسی آتا ہے تو ونڈوپر اس کا سامنا اسرار احمد سے ہوتا ہے یہ توان کی ڈیوٹی ہے لیکن وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ اس حد تک رابطے میں رہتے ہیں کہ ان کے دکھ سکھ کی ہمیشہ خبر رکھتے ہیں۔ایک مرتبہ لاہور سے سینٹ پیٹرز برگ براستہ استنبول جارہا تھا کہ استنبول میں ایک پاکستانی نوجوان جو سٹوڈنٹ ویزہ پہ روس جاررہا تھا یہ اس کا روس کا پہلا سفر تھا۔تھوڑی گپ شپ کے بعد میں نے اسے ہمدردانہ انداز میں کہا کہ روس میں اگر کوئی ہیلپ کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مجھے فون کر لینا۔اتنا کہنا تھا کہ وہ جھٹ سے بول پڑا ”جناب آپ کی بڑی مہربانی ماسکو ایمبیسی میں میرے کزن ہوتے ہیں اور ان کا نام اسرار ہے“۔یہ سنتے ہی میرے لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپا کر الوداع کر دیا۔حقیقت میں وہ اسرار احمد کا کزن نہیں تھا بس یہ اسرار کی محبت اور خلوص ہے کہ لوگ روس پہنچتے نہیں اور ان کی محبت میں پہلیہی گرفتار ہو جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم بھی ان کی پرکشش اور جادوئی شخصیت کے حصار میں گرفتار ہیں۔ جنوری میں،میں پاکستان میں تھا کہ اسرار بھائی کی کال آئی کہ روس کب آ رہے ہومیں نے جواب دیا کہ فروری میں تو انہوں نے کہا کہ17فروری 2018کو پاکستان ایمبیسی ماسکو کے زیر اہتما م ”پاکستان یونٹی اینڈ کلچرل ڈے“ کے حوالے سے بہت بڑی تقریب ہو رہی ہے جس میں آپ بطور جرنلسٹ ضرور شرکت کریں اور میڈیا کوریج بھی۔۔۔۔ سو میں نے فروری میں پاکستان سے روس جانے کے حوالے سے اپنا پہلا شیڈول تبدیل کیا اور پروگرام کی وجہ سے سینٹ پیٹرز برگ کی بجائے ماسکو کا ٹکٹلے لیا۔
ماسکو جانے کیلئے میر انتخاب فلائی دبئی ائیر لائن تھی جو سیالکوٹ سے ماسکوبذریعہ دبئی پہنچتی ہے یہ ائیرلائن سستی ہے اس لئے کہ اس میں آپکو کوئی چیز فری نہیں ملتی۔پانی، کولڈ ڈرنکس، کھانا، انٹرنیٹ وغیرہ آپ کو جہاز کے اند ہی خریدنا پڑتا ہے جبکہ انٹرٹینمنٹ کیلئے اگر آپ نے کوئی فلم دیکھنی ہے یا ویڈیو گیم کھیلنی ہے تو آپ کو اس کیلئے بھی ائیر ہوسٹس سے ہیڈفون خریدنا پڑے گا۔سیالکوٹ سے دبئی تک آپ کو جہاز میں یہ سہولت نہیں ملے گی۔اس لئے میرا بھی سیالکوٹ سے دبئی تک کا سفر بوریت میں گزرا۔دبئی ائیرپورٹ پر میرا قیام دو گھنٹے تھااس کے بعد اگلے سفر دبئی سے ماسکو کا آغاز ہو گیا۔ یہ جہاز پاکستان سے آنے والے جہازسے نیا تھا اور اس میں سیٹ پر بیٹھتے ہی پتہ چل گیا کہ میرے سامنے والی سیٹ کی پشت پر ٹی وی سکرین نصب ہے۔ خیر سفر شروع ہوا دبئی سے ماسکوساڑھے پانچ گھنٹے میں ہم ماسکو پہنچ گئے۔ جہاز جب لینڈ کرتا ہے تو روسی لوگ تالیاں بجاکر جہاز کے کیپٹن کو داد دیتے ہیں کہ اس نے خیرو عافیت سے منز ل مقصود تک پہنچایا اس کے برعکس ہم پاکستانی جہاز کے لینڈ کرتے ہی اپنی سیٹ بیلٹ کھولتے ہیں اور موبائیل آن کر کے اپنے اپنے سامان کی طرف لپکتے ہیں حالانکہ جہاز ابھی رن وے پر ہی ہوتا ہے۔
منفی بارہ،چودہ درجہ حرارت اور برف باری کے باوجود سوا کروڑ سے زیادہ آبادی کے وسیع و عریض شہر میں زندگی کو رواں دواں دیکھ کر ایک بار تو ضرور حیرت ہوتی ہے۔ماسکو لینڈنگ سے پہلے جہاز سے جب نیچے نظر پڑی تو ہر طرف برف ہی برف دکھائی دے رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے ماسکو نے برف کی سفید چادر لپیٹ رکھی ہے۔ماسکو شہر، ونوکوو انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے تقریبا ًچالیس کلومیٹر دور ہے۔ شہر سے ملانے والی ہائی وے کے دونوں اطراف برف سے ڈھکے ہوئے میدان اور درختوں کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ ماسکو شہر کی مرکزی شاہراہیں بلا شبہ فٹبال گراؤنڈ جتنی چوڑی ہیں، اس کے باوجود اکثر اوقات ٹریفک جام کا منظر رہتا ہے۔ ماسکو کی سڑکوں پر میڈ ان رشیا کار ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پاکستان میں کوئی ایماندار پولیس افسر۔ دنیا بھر کے لگژری برانڈز کی کاریں ماسکو کی چوڑی سڑکوں پر حکمران ہیں۔ترکی کے شہر استنبول کے بعد غیر مسلم یورپ میں ماسکو مسلم آبادی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اندازوں کے مطابق پچیس لاکھ کے قریب مسلمان اس شہر میں مقیم ہیں۔ ماسکو کی کل آبادی تقریباً سوا کروڑ ہے۔ روس بحیثیت مجموعی یورپ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے۔روس میں دو کروڑ سے زائد مسلمان مقیم ہیں۔ زیادہ تر روسی مسلمان تاتار، چیچن اور داغستانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، تاہم ماسکو میں دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے مسلمان بھی مقیم ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت سنی ہے اور فقہ حنفیہ کی پیروکار ہے، اندازوں کے مطابق دس فیصد کے قریب مسلمان شیعہ ہیں جو زیادہ تر آذری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔شہر میں چار مسجدیں ہیں۔ شہر کی مرکزی مسجد مشہور اولمپک اسٹیڈیم کے قریب واقع ہے۔ اس مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی دوبارہ تعمیر پر سترہ کروڑ ڈالر (تقریباً سترہ ارب پاکستانی روپے)سے زائد لاگت آئی۔ مسجد کی تعمیر کے لیے مسلمان روسی بزنس مین سینیٹر سلیمان کریموف نے دس کروڑ ڈالر(تقریباً دس ارب پاکستانی روپے)کی رقم عطیہ کی۔ مسجد کی افتتاحی تقریب میں روس کے صدر ولاڈیمیر پیوٹن، ترکی کے صدر رجب طیب اوردگان اور فلسطین کے صدر محمود عباس نے بھی شرکت کی۔ اس خوبصورت مسجد کمپلیکس میں اسلامک ایسوسی ایشن کے دفاتر، حلال کھانوں کا ریستوران، حلال کھانوں کی ایک کینٹین اور حلال گوشت اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی فروخت کی ایک سپر مارکیٹ بھی ہے۔ مسجد کا نام کیتھیڈرل مسجد ہے، اسے سنٹرل مسجد بھی کہتے ہیں۔کئی دیگر یورپی ممالک کی طرح یہاں بھی مسجد کے ساتھ حلال کھانوں کے ریستوران کا رواج ہے۔ بولشایا تاتارسکایا اسٹریٹ پر واقع ہسٹاریکل مسجد میں بھی ریستوران اور دوکانیں بنی ہوئی ہیں۔ماسکو میں کھانے کی ایک منفرد روایت چائے (قہوہ)سے آغاز ہے۔ کھانے کا آرڈر دیتے ہوئے قہوہ منگوا لیا جاتا ہے اور کھانے سے پہلے، کھانے کے دوران اور کھانے کے بعد قہوے سے شغل جاری رہتا ہے۔
میرا گھر سینٹ پیٹرزبرگ میں ہونے کی وجہ سے ماسکو میں مجھے اپنے دوست کے ہاں ٹھہرنا پڑتا ہے اس لیے ائیرپورٹ سے سیدھا کانتی میروسکایاپر اس کے ہاں پہنچ گیا۔شہزاد احمدجنجوعہ عرصہ تیرہ سال سے روس میں مقیم ہے انتہائی معصوم اور سادہ سا انسان ہے نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ سے تعلق ہے اور مجھے بھائیوں سے بھی عزیز ہے یہ چار لوگ مل کر رہتے ہیں اس کے ساتھ ایک انڈین دوست تنویر احمد،سیالکوٹ کے میاں شمس اور بورے والا کے محمد بابررہائش پذیر ہیں تنویر بھائی کا تعلق انڈیا سے ضرور ہے لیکن وہ پکے مسلمان ہیں صوم وصلاۃ کے پابند انتہائی شریف النفس انسان ہیں جب بھی ان سے ملا قات ہوتی ہے تو بھارت کے حالات واقعات سے بہت حد تک آگاہی ہوتی ہے۔اس لیے پردیس میں دیس کا ماحول مجھے اپنے دوست کے ہاں ہی ملتا ہے۔ اگلے دن پاکستان ایمبیسی ماسکو میں اسرار بھائی سے ملنے جا پہنچا،پاکستان سے لائے ہوئے مصالحہ جات دیئے جو بھابھی جان کے حکم (بذریعہ اسرار بھائی) کی تعمیل تھی کیونکہ روس میں پاکستانی ذائقوں کیلئے پاکستانی مصالحہ جات کو بڑی ”قدر“ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسرار بھائی سے سلام دعا کے بعد پروگرام کے حوالے سے بات چیت ہوئی روس میں پاکستان ایمبیسی کے کسی پروگرام میں میر ی یہ پہلی شرکت تھی اس لئے میری کوشش بھی تھی کہ جتنا ہو سکے اس کی میڈیا کوریج زیادہ سے زیادہ کی جائے۔محترم قاضی محمد خلیل اللہ ہمارے ایمبیسیڈر ہیں انتہائی خوش اخلاق اور پرخلوص شخصیت کے مالک ہیں پاکستان کلچرل اینڈ یونٹی ڈے کی تیاریاں عروج پہ تھیں جس کی ڈور پاکستان ایمبیسی کے قونصلر بلال وحید کے ہاتھ میں تھی ان سے ملنے کے بعد بندہ کا فی دیر تک کسی سحر کے حصار میں مبتلا رہتا ہے کیونکہ وہ ہیں ہی ایسی شخصیت،دھیمے لہجے میں نفیس اور جامع گفتگو کرنے والے، ایک سچے محب الوطن،پاکستان کی اصل اور مثبت تصویر دنیا کو دکھانے کی دھن میں مگن اپنا کام جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ایک سچے پاکستانی ہونے کا یہی ثبوت ہے کہ آ پ دنیا کے جس کونے میں بھی بستے ہوں لیکن آپ کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہو۔قونصلر صاحب کے پاس بیٹھ کر کافی پینے کے ساتھ ساتھ ملکی حالات اور روس میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر بھی بات چیت ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت روس میں تقریباًدوہزار پاکستانی ہیں جن میں سے ماسکومیں پانچ سو کے قریب پاکستانی بستے ہیں۔ چونکہ اگلے دن 17فروری کو پروگرام تھا جس کیلئے ہر شخص اپنی ذمہ داریاں نمٹانے اور پروگرام کے انتظامات میں لگا ہوا تھا اس لئے مجھے بھی قونصلر بلال وحید صاحب سے کل پروگرام میں ملنے کا کہہ کر رخصت ہونا پڑا۔
”پاکستان کلچرل اینڈ یونٹی ڈے“کا پروگرام چونکہ سہ پہرچار بجے شروع ہونا تھااس لیے میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ پونے چار بجے پہنچ گیا۔اسرار احمد اور بلال وحید صاحب ہال کے باہر مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔اسرار بھائی یہ کہتے ہوئے میرے ساتھ ہال میں داخل ہوئے کہ چلو میں تمہاری نشست دکھاؤں انہوں نے مجھے ہال کی پہلی رو میں دائیں جانب میڈیاکیلئے رکھی ہوئی نشست پربیٹھنے کا کہا اور واپس ہو لیئے۔ میرے ساتھ والی نشست پر میرے بہت ہی پیارے دوست و صحافی اشتیاق ہمدانی سید براجمان تھے اور ان کے ساتھ ایک روسی صحافی اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے تھے۔ہال پاکستانی کمیونٹی سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھاکوئی نشست خالی نہیں تھی جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ پیچھے اور دائیں بائیں دیواروں کے ساتھ کھڑے تھے یہ لوگ ماسکو کے علاوہ سینٹ پیٹرز برگ اور روس کے دور دراز علاقوں سے اس پروگرام میں شرکت کرنے پہنچے تھے سب کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم کی جھنڈیاں اور سینے پرسبز ہلالی پرچم کے بیج لگے ہوئے تھے۔ پروگرام شروع ہونے سے پہلے کامیاب ہو گیا تھا۔سارے انتظامات مکمل تھے بس ایمبیسیڈر قاضی محمد خلیل اللہ صاحب کا انتظار تھا کہ جوں ہی آئیں پروگرام کا آغاز ہو۔کچھ لمحوں بعد ہی ایمبیسیڈر صاحب ہال میں داخل ہوئے اور مہمانوں سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ہال کی لائیٹس بجھا کر سٹیج پرپروجیکٹر کی مدد سے ویڈیو کے ذریعے قومی ترانے سے پروگرام کا آغاز ہواجس پر تمام لوگوں نے باادب کھڑے ہوکر قومی ترانا سنا۔ پروجیکٹر کی مدد سے پاکستان کے پانچوں صوبوں بشمول آزاد جموں وکشمیر کے کلچر کی بھرپور عکاسی کی گئی۔تقاریرکا سلسلہ شروع ہوا تو پہلی تقریر کیلئے بلوچ قوم پرست لیڈر ڈاکٹر جمعہ خان مری کو سٹیج پر دعوت دی گئی ۔ڈاکٹر جمعہ خان مری میر ہزار خان مری کے بیٹے اور مری قبیلے کے اہم قوم پرست راہنماہیں جوگذشتہ دودہائیوں سے آزاد بلوچستان تحریک کے ہر اول دستے میں شامل رہیتھہیں۔ڈاکٹر جمعہ خان مری نے اپنی ساری زندگی آزاد بلوچستان تحریک کیلئے کام کیا۔ اس کے لئیاس نے اپنے قلم کی طاقت کا استعمال کیا، پروبلوچ ویب سائٹس بنائیں،دنیا بھر میں پاکستان مخالف سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔اسی نام نہاد تحریک کی خاطراس نے اٹھارہ سال سے ماسکو میں جلاوطنی اختیار کی اور بڑھ چڑھ کر بلوچستان کی آزادی کیلئے سرگرم رہے۔ڈاکٹر جمعہ خان مری نے ہال میں موجود تمام پاکستانیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ میں اپنے ساتھیوں سمیت آزاد بلوچستان تحریک سے دستبردار ہوتا ہوں۔ان کا یہ کہنا تھا کہ ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔یہ ایک بریکنگ نیوزتھی روس کے دارلحکومت ماسکو سے، پاکستان کے لیئے ایک اعزاز تھا اور بلوچستان میں بدامنی پھیلانے اور جنیوا،لندن اور امریکہ میں فری بلوچستان کے بینرز اور پوسٹرز لگوانے والے سازشی اور دشمن ملک بھارت کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا۔ ڈاکٹر جمعہ خان مری نے کہا کہ ہم سب حیر بیار مری، برا ہمداغ بگٹی اور مہران بگٹی،جیسے نام نہاد لیڈروں سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں ہم بھٹکے ہوئے تھے ہم نے ایک ایسی تحریک کی خاطر اپناسب کچھ داؤ پر لگا دیا جس کی بنیادہی کھوکھلی تھی۔حیر بیار مری، برا ہمداغ بگٹی اور مہران بگٹی، نے بلوچستان میں قتل و غارت اور دہشت گردی کا بازار گرم کرنے میں اپنے غیر ملکی آقا کی مدد کی۔ میری قوم کے بہت سارے معصوم لوگ اس دہشت گردی میں مارے گئے۔اسی دن میں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایک لمحے کیلئے ان کا ساتھ نہیں دونگا۔ میں سب کچھ چھوڑ کر قومی دھارے میں واپس آ گیا ہوں اب میرا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔میں اپنے بلوچ بھائیوں کو متحد کروں گا اور اب ہمارا نعرہ ہوگا گو براہمداغ گو، گوحیربیارمری گو،گو مہران بگٹی گوانشاء اللہ ان کو بھارت بھاگنے پر مجبور کر دیں گے جس کی پشت پناہی پر یہ لوگ بلوچستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ ڈاکٹر جمعہ خان مری کے اعلان پر ہر کسی کے چہرے میں مسرت تھی پاکستانی کمیونٹی نے بھرپور جوش وجذبے اور تالیوں کی گونج میں ڈاکٹر جمعہ خان کو قومی دھارے میں واپسی پر خوش آمدید کہا۔ ایمبیسیڈرقاضی محمد خلیل اللہ نے ڈاکٹر جمعہ خان مری کو گلے لگا یا اور مبارکباد پیش کی۔اس خوشی کے موقع پر بلوچ کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کیلئے روایتی ڈانس میں جناب قاضی خلیل اللہ سمیت سب نے کھلے دل سے”حصہ“ ڈالا۔ ہال پاکستان زند باد اور ملی نغموں سے گونجتا رہا۔

( نوٹ: اُردو پاور پر شائع ہونے والے کالم ہمارے محترم لکھاریوں کی اپنی تخلیقات ہیں تاہم اِدارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

پنھنجي راءِ لکو