لوگوں کو پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس لگا لگا کر پاگل کردیا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین اور اضافی ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ٹیکس لگا لگا کر لوگوں کو پاگل کر دیا، کس بات کا ٹیکس ہے، ساراحساب دینا ہوگا، پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا عمل مشکوک لگتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کس طریقہ کار کے تحت 62.8 روپے فی لٹر کا تعین کیا گیا ؟ ڈپٹی ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ مختلف ادارے 300 ارب روپے کے نادہندہ ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ان اداروں سے 300 ارب روپے واپس کیوں نہیں لے رہے ؟ اس کا مطلب ہے آپ بینکوں سے قرض لے کر معاملات چلا رہے ہیں۔
یعقوب ستار نے انکشاف کیا کہ بینکوں سے 95 ارب روپےقرض لے رکھا ہے، ہر سال 7 ارب بینک سود کی مد میں جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات، گزشتہ 6 ماہ کے آکشنز (بولی) اور قیمتوں کے تعین کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے سیکریٹری پیٹرولیم، سیکریٹری وزارت توانائی، چیئرمین ایف بی آر ، ایم ڈی پی ایس او اور دیگر کو جمعہ کو پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

پنھنجي راءِ لکو