نئے ڈیمز کی تعمیر آئندہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا، سیدعلی ظفر

نگراں وزیراطلاعات بیرسٹر علی ظفر کا نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ملک کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور پوری قوم کو پانی کی کمی کے مسائل کا ادراک ہے۔ پانی کے بحران کے حل کیلئے 10 تجاویز زیرغور ہیں۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ 1960 میں بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کیا تھا اور معاہدے کے تحت 3 مشرقی دریا بھارت کے حصے میں ہیں۔ معاہدے کے تحت جہلم، سندھ اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے ہیں اور بھارت نے اپنے دریاؤں پر ڈیمز بنالیے ہیں۔
نگراں وزیراطلاعات بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کالاباغ سمیت 6 سے7 ڈیم بنانے تھے اور بدقسمتی سے ہم نے صرف 2 ڈیمز بنائے ہیں۔ ڈیمز میں مٹی بھرنے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں کمی آئی ہے اور کالاباغ ڈیم بننا بہت ضروری تھا اور بننا چاہیے تھا۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق نہیں ہوا، دیگر ڈیم کیوں نہیں بنے اور کالاباغ ڈیم متنازعہ بنانے میں غیرملکی ہاتھ بھی ملوث ہوسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی پانی کے مسائل بڑھ سکتے ہیں اور پاکستان میں سالانہ اوسطاً پانی کی دستیابی 1300 ملین ایکڑفٹ ہے۔
بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ آبی ذخائر نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے اور ملک میں 90 سے 95 فیصد پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نہروں کی صفائی نہ ہونے کے باعث 48 فیصد پانی ضائع ہو جاتا ہے اور ہمارا آبپاشی کا نظام 200 سال پرانا ہے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہمیں جدید زرعی نظام ڈرپ ایری گیشن کی طرف جانا ہوگا اور ہم اپنے بجٹ کا 3 سے7 فیصد پانی پرخرچ کرتے ہیں جو ناکافی ہے۔ بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے کشن گنگا ڈیم بنایا ہے۔
نگراں وزیراطلاعات بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کالاباغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا کرنےکی ضرورت ہے اور نئے ڈیمز کی تعمیر آئندہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈیمز کے لیے فنڈز کا بندوبست کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

پنھنجي راءِ لکو