اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد مبشر انوار چیف ایڈیٹر اردو پاور ڈاٹ کوم

Email:-mmanwaar@yahoo.com

Tele:-                    333-

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-08-2011

ایک زرداری سب پہ بھاری مگر کیوں
کالم    محمد مبشر انوار
پاکستانیوں کے لئے حکمران عموماً ”حادثاتی “ طور پر تخت پر براجمان ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ اس حادثے کے پیچھے کتنی پلاننگ ہوتی ہے،کتنے پاپڑ بیلے جاتے ہیں،کتنی اور کہاں کہاں یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیںمگر جیسے ہی نیا حکمران تخت پر مسند افروز ہوتا ہے وہ اپنی عاجزی و انکساری کے اظہار اس انداز میں کرتا ہے کہ عوام حقیقتاً نئی ذمہ داری کو حادثاتی ہی تسلیم کریں ۔ عاجزی و انکساری کا یہ اظہار فقط عوام کو اس امر کا یقین دلانا ہوتا ہے کہ چونکہ اس نئی ذمہ داری میں اس کی اپنی کوئی خواہش موجود نہیں اس لئے وہ تہہ دل سے اور پوری ایمانداری سے عوام کی خدمت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس کی تکمیل کے لئے آسمان سے تارے بھی توڑ لائے گا۔ خدمت خلق کے حاکم سیاستدانوں کے یہ دعوے ایک طرف اور دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرتے کہ وہ سیاست بھی حصول اقتدار کے لئے ہی کرتے ہیں۔ تضاداتی اس سیاست میں بیوقوف فقط عوام ہی بنتی ہے کہ اس کے پاس کوئی متبادل چوائس نہیں اور نہ ہی اختیار رکھنے والے انہیں کسی اور طرف جانے دیتے ہیں۔ہمارے موجودہ حکمران بھی ”حادثاتی“ طور پر ہی اقتدار میں آئے ہیں وگرنہ درحقیقت انہیں اختیار کی کوئی بھوک نہیں تھی‘انہیں بہ امر مجبوری،عوامی مفاد میں یہ ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ اب صورت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سے جناب صدر آصف علی زرداری شدید ترین تنقید کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کے چاہنے والے ایک زرداری سب پہ بھاری ،جبکہ ان کے مخالفین ان میں ہزاروں خامیاں نکالتے نظر آتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر زرداری سب پہ بھاری ہیں تو کیوں!!!
حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ کریں اور انہیں ایک ایسا معاشرہ فراہم کریں جو خوف و خطر سے پاک ہو۔ حادثاتی طور پر اقتدار میں آنے والوں کے لئے یہ بہت بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہوتا ہے مگر افسوس ہوتا ہے کہ ایسے حکمران اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے تقسیم کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہو تے ہیںتا کہ عوام اپنے مسائل میں الجھے رہیں۔ اس کو سمجھنے کے لئے پاکستان کے تمام حادثاتی حکمرانوں کا دور حکومت ،دیکھ لیںآپ کو یہ حقیقت صاف صاف نظر آئے گی۔ ایوب خان ،یحی خان، ضیاءالحق، پرویز مشرف جیسے حادثاتی آمروں کا دور ہو یا آج صدر زرداری کے ”حادثاتی“ اقتدار کو دیکھ لیں۔ آج بھی کراچی بالخصوص اور باقی ملک بالعموم امن و امان کے شدید بحران سے دو چار ہے ۔ میٹرو پولیٹن شہر کراچی میں جاری قتل و غارت ایک طرف اقتدار کو دوام دینے کی کوشش ہے تو دوسری طرف اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش ہے تا کہ جو مخالفین ہیں، ان میں سے کسی کی چونچ یاکسی کی دم تو گم ہو گی، اور اسی وقت ممکن ہے اپنی دال بھی گل جائے۔
مفاہمتی پالیسی کا تسلسل بھی اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے مگر اس کا جو استعمال اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کہنے کو پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت ہے اور اصولی طور پر پیپلز پارٹی کو بلیک میل ہونا چاہئے لیکن ہو اس کے الٹ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے باقی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ مفاہمت کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن کے حکومت سے الگ ہونے کے بعد سے تقریباً تمام سیاسی جماعتیں حکومت کا مزہ لے چکی ہیں اور اس وقت بھی بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی جگہ اور حیثیت میںاقتدار کا حصہ ہیں۔ کامیاب مفاہمتی پالیسی کا اس سے عمدہ مظاہرہ اور کہاں نظر آ سکتا ہے؟یہ الگ بات ہے کہ مفاہمت کے اس عمل میں پیپلز پارٹی نے تقریباً ہر سیاسی جماعت کا نقاب الٹ دیا ہے بالخصوص ایم کیو ایم کی جو حالت ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ایک دن وہ حکومت سے الگ ہوتی ہے اور دوسرے دن پھر وسیع تر قومی مفاد میں حکومت کا حصہ ہوتی ہے ، لیکن در حقیقت وہ پہلے سے زیادہ حصہ وصول کر کے واپس اتحاد میں شامل ہو جاتی ہے۔
انتظامی امور کے حوالے سے پاکستان میں مزید انتظامی یونٹ بہت عرصہ قبل بن جانے چاہئیں تھے مگر اقتدار اور ذاتی پسندو نا پسند نے پاکستان کی ترقی میں اس روڑے کو اٹکائے رکھا جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ہندوستان نے ترقی کی خاطر اپنے ملک کے کئی چھوٹے صوبے بنا ئے اور عوام کو اقتدار میں شمولیت کا نہ صرف احساس دیا بلکہ اپنے ملک کو ترقی کی شاہرا ہ پر گامزن کر دیا۔ ہندوستان میں انتظامی یونٹ کی بنیاد جہاں جغرافیائی تھی وہیں لسانی بنیادوں پر بھی ان کی تشکیل کی گئی ۔پاکستان میں بھی مزید انتظامی یونٹ نہ صرف وقت کی اہم ترین ضرورت ہے بلکہ ان کو جتنی جلد ممکن ہو سکے ،قائم ہونا چاہئے لیکن اس اہم ترین ایشو کو بھی سیاست کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ پنجاب کو مزید صوبوں میں اس لئے تقسیم کرنا چاہئے تا کہ جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے ،وہاں اس کی ایک الگ حکومت بن سکے اور مسلم لیگ ن کو مزید محدود کیا جاسکے،اسی طرح کراچی کے حالات ہیں ، ہزارہ کا مسئلہ ہے ۔ ملک کے ان حصوں کو آسان انتظامی یونٹ میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔ سندھی دانشوروں کا ایک نقطہ نظر ہے تو پشتونوں ہزارہ کے معاملے پر مختلف سوچ رکھتے ہیںاور اس منفی سوچ کو اس وقت پھیلایا جار ہا ہے، لسانیت کو بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج غیر مسلم ،ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے خواہشمند ہیں اور اس کی خاطر وہ ہر قسم کی اور ہر سمت کی تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ لسانی، مذہبی، جغرافیائی غرض ہر وہ ایشو ، جس سے مسلمان تقسیم ہو سکیں غیر مسلم اس پر عمل پیرا ہیں لیکن کیا اس سازش کی وجہ سے ہمیں ترقی کے زینے کو چھوڑ دینا چاہئے؟ ہمیں اپنی سوچ کے انداز کو محدود کر دینا چاہئے؟ہمیں برداشت و روا داری سے کنارہ کر لینا چاہئے؟
ان حقائق کی بنیاد پر قارئین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک زرداری کیسے اور کن معاملات میں اپنے حریفوں پر بھاری ہے۔ حادثاتی طور پر اقتدار میں آنے والا زرداری ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنی پوزیشن کو مضبوط و مستحکم کرتا چلا جا رہا ہے جو اس کے مخالفین کے لئے قابل قبول نہیں اور حقیقتاً سیاست میں ہونا بھی نہیں چاہئے لیکن اس کے لئے جو قواعد و ضوابط طے ہوں ،انہی کے مطابق کھیلنا چاہئے تا کہ کھیل کا حسن برقرار رہے ۔ اس وقت زرداری اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی قابل قبول ہے اور موجودہ توانائی کے بحران کو بھی اگر بغور دیکھیں تو جتنے وسائل (آئی پی پیز)موجود ہیں وہ ملکی توانائی کی ضروریات کے لئے کافی ہیں۔ اصل ضرورت ان کو صحیح طریقے سے چلانے کی ہے۔موجودہ آئی پی پیز کو اگر سابقہ واجبات ادا کر دئیے جائیں اور مستقلاً ان کی ضروریات پوری کی جائیں، ان کے واجبات بر وقت ادا کئے جائیں تو پورے پاکستان سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور کون جانے اگلے انتخابات سے قبل یہ کام بھی ہو جائے،تب زرداری واقعی سب پہ بھاری ہو گا یا نہیں!!! فیصلہ انتخابات کے بعد منظر عام پر آ جائے گا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved