اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-

تاریخ اشاعت:۔06-04-2011

نئی ڈرامہ بازی
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلیم صافی
تم ساری دنیا کو تھوڑے وقت کیلئے اور تھوڑے لوگوں کو ساری زندگی کے لئے بے وقوف بناسکتے ہو لیکن ساری دنیا کو ساری زندگی کے لئے بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا“۔ دانا فرد کا دانائی پر مبنی یہ قول وقت نے سچ ثابت کیا ہے۔ جس نے بھی ساری زندگی، ساری دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے، خود وہ کتنا ہی چالاک کیوں نہ تھا، آخر میں خود بے وقوف بنا ہے لیکن نہ جانے بابر اعوان جیسے دانا مشیر اپنے لیڈر کو اس قول کی طرف متوجہ کیوں نہیں کررہے؟ متوجہ کرنا تو دور کی بات ہے وہ خود بھی اس روش میں ان کے ہمنوا نظر آتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ پاکستانیوں کو بے وقوف بنانے کیلئے حکومت جتنے بھی ڈرامے کررہی ہے، بیشتر اوقات اسکے اسکرپٹ لکھنے والوں میں دانا بابر اعوان صاحب ہی سرفہرست ہوتے ہیں۔

نادر موقع ملا تھا اور اگر آصف علی زرداری صاحب مفادات، خواہشات اور تعصبات سے بلند ہوکر سوچتے تو پیپلز پارٹی کے ماضی کے تمام گناہوں کو معاف، پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن اور تاریخ میں اپنے نام کو ایک نئے بھٹو کے طور پر رقم کراسکتے تھے لیکن افسوس کہ انہوں نے چالاکی، جسے ہمارے ہاں ان دنوں کامیاب سیاست کا نام دیا جاتا ہے،کا سہارا لیا۔ میاں نوازشریف کے ساتھ وعدے کرکے توڑ ڈالے۔ پھر ججوں کی بحالی کے معاملے پر چالاکی سے کام لیا۔ پھر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چالاکی کی کوشش کی۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے تو اب سر تسلیم خم کر چکے ہیں اور میاں نواز شریف کے ساتھ بھی درپردہ مک مکا ہوگیا ہے لیکن میڈیا اور عدلیہ کے ساتھ چالاکی بدستور جاری ہے اور اب عدلیہ کے ساتھ چلبازی زوروں پر ہے ۔ان کے دانشوروں کی عقل کی گٹھلی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے کیس کو تازہ کرنے کا ڈرامہ نکل آیا ہے جس کا مقصد عدلیہ کو زیر دباؤ لانے اور عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔۱۹۶۸ء سے ۱۹۷۰ء کا دورجو نہایت بھرپور تھا اور جس میں وہ ایک انقلابی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ اس دور میں وہ متنازع بھی تھے لیکن مغربی پاکستان کی اکثریت کی صفوں میں نہایت مقبول بھی رہے۔ دوسرا دور ان کے اقتدار یعنی ۱۹۷۰ سے ۱۹۷۷ء تک کا ہے ۔ ان کا یہ دور نہایت متنازع ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھائی۔ اس دور میں ڈاکٹر نذیر کی ہلاکت، لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ، ایف ایس ایف کی تشکیل، بلوچستان آپریشن اور اسی نوع کے دیگر ہزاروں ناپسندیدہ واقعات ہوئے۔ اس دور کے بھٹو کے کارنامے بھی بہت ہیں لیکن اس کے شدید متنازع ہونے میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔

تیسرا دور بھٹو کی پھانسی کے بعد کا دور ہے، یہ دور نہایت تابناک اور شاندار ہے ۔ پھانسی نے بھٹو کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ اس دور میں وہ متنازع سے غیرمتنازع لیڈر بنتے گئے۔ خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود جیسے ان کے شدید مخالفین نے بھی ان کو معاف کردیااور ان کے بیٹے، ان کی بیٹی اور پھر داماد کے ہمسفر بن گئے۔ بھٹو ایک جماعت کی بجائے قوم کے لیڈر بن گئے اور ہم جیسے طالب علم بھی ہر سال ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر ان کی یاد میں کالم لکھ کر ان کی پھانسی کو ملک و قوم کے لئے شدید نقصان قرار دینے لگے لیکن افسوس کہ اب ان کے سیاسی جانشین (حادثاتی سہی) ان کو ایک بار پھر متنازع کرنے لگے ہیں۔ اب جب ان کا مقدمہ دوبارہ زندہ ہوگا تو ان کے ۱۹۶۸ سے لے کر ۱۹۷۷ء کے سیاسی دور کے واقعات بھی زندہ ہوں گے۔ اگر بھٹو کی قبر بولے گی تو پھر ڈاکٹر نذیر اور ایف ایس ایف کے ہاتھوں مرنے والے دیگر لوگوں کی قبریں بھی خاموش نہیں رہیں گی اور جب وہ بولیں گی تو بھٹو ایک بار پھر متنازع بنیں گے ۔

بھٹو پھانسی کیس زندہ ہوگا تو معاملہ صرف سپریم کورٹ میں قانونی بحث مباحثے تک محدود نہیں ہوگا۔ پھر یہ سوال بھی اٹھیں گے کہ اگر پی پی پی کی موجودہ قیادت واقعی بھٹو خاندان کی اتنی ہمدرد ہے تو پھر وہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو کیوں سزا نہیں دے سکتی؟ پھر تو مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کو بھی زندہ کرنے کا مطالبہ ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ سوال اٹھے گا کہ اگر پی پی پی کی موجودہ قیادت واقعی ذوالفقار علی بھٹو کی اس قدر شیدائی ہے تو پھر اس نے ان لوگوں کو کیوں کھڈے لائن لگا رکھا ہے جو آخری دم تک بھٹو کے ساتھ کھڑے رہے اور وہ لوگ کیوں آج زرداری صاحب کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹیں؟

بھٹو کا ساتھ تو مخدوم طالب المولیٰ اور بیگم اشرف عباسی جیسے لوگوں نے دیا تھا جبکہ یوسف رضاگیلانی صاحب کا خاندان ان کے قاتل جنرل ضیاء الحق کے ساتھ کھڑا تھا۔پھر یہ سوال اٹھے گاکہ گیلانی صاحب پر یہ مہربانی اور مخدوم طالب المولیٰ اور بیگم اشرف عباسی کے بیٹوں کے ساتھ یہ زیادتی کیوں ؟جب بھٹو صاحب کو پھانسی لگ رہی تھی تو رحمن ملک صاحب چوہدری ظہورالٰہی کے مدح خواں تھے لیکن آج بھٹو کے حقیقی ساتھیوں اور ان کے جانشینوں کو ملک صاحب کی تابعداری پر مجبور کردیا گیا ہے۔ اب یہ سوال بھی اٹھے گا کہ بھٹو کے شدید مخالف چوہدری ظہور الٰہی کے بندہ خاص پر یہ عنایات کیوں؟ زرداری صاحب کے ترجمانوں کے پاس ان سوالوں کا جواب ہے تو ، بسم اللہ۔ بھٹو کی پھانسی کا باب دوبارہ کھول دیجئے ۔ نہیں تو پھر ایک نئے ڈرامہ کے ذریعے عدلیہ، میڈیا اور قوم کا وقت برباد کرنے کا کیاجواز؟ حکمرانوں کی ذہانت اور چالبازیوں کے ہم بھی معترف ہیں۔ ابھی تک ان کی اکثرچالیں کامیاب بھی چلی ہیں لیکن اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ انسان کتنا ہی چالاک اور ہوشیار کیوں نہ ہو، وہ ساری دنیا کو ساری زندگی کیلئے بے وقوف نہیں بنا سکتا۔
بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved