اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-zamshamalik@gmail.com

تاریخ اشاعت:۔07-04-2011

دوسری سازش
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذوالفقارعلی ملک
پچھلے کالم میں وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کے شروع کے دنوں میں ہونے والی سازشوں میں سے کچھ پر سے پردہ اٹھاﺅں گا اسی سلسلے میںقائداعظم کے قتل کے کی سازش کے بعد آج دل کیا کہ دوسری سازش کے بارے میں لکھوں جو کہ لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے تھی 16 اکتوبر 1951ءکو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے پاکستان کے پہلے وزیراعظم ‘ تحریک پاکستان کے صف اول کے مجاہد لیاقت علی خان کے سینے میں نہایت بے درد ی سے تین گولیاں اتار کر پاکستان کے جہد اللبقا کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ یقینا اس پر پورا پاکستان رو پڑا تھا لیکن اس قتل کو جس طرح گھپ اندھیروں کے حوالے کر دیا گیا اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس عظیم المیے کے بعد اس پر جو کمیشنز اور تحقیقاتی کمیٹیاں بن گئیں اسے بری طرح دبا کر اس قصے کو مکمل طورپر ختم کر دیا گیا اور آج تک عوام یہ جان نہیں پائے کہ لیاقت علی خان کو کیوں قتل کیا گیا؟ کس نے قتل کیا اور وہ کون سے ہاتھ تھے جس نے اس قتل کو دبا دیا؟
قتل کے کچھ ہی دنوں بعد اس کو ایک افغانی باشندے سید اکبر کے سر پر تھونپنے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ نے عوامی عدالت سے جان چھڑانے کے لئے ایک پریس ریلیز جاری کیا جس کے مطابق” ملزم سید اکبر کو بیرونی ہاتھوں نے خرید لیا تھا“ حالانکہ اس فعل میں مکمل طورپر اندرونی ہاتھ ہی کارفرما تھے۔ وزارتِ داخلہ کے پریس ریلیز کے مطابق ” ملزم سید اکبر کی جیب سے دو ہزار چالیس روپے جبکہ ایبٹ آباد میں اس کے گھر کی تلاشی کے دوران دس ہزار روپے برآمد ہوئے“۔ وزارتِ داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ” ملزم کے گھر سے ایک نقشہ بھی برآمد ہوا ہے جس میں پاکستان کے شمال مغربی حصے کی نشاندہی کی گئی ہے“۔
ملزم سید اکبر کی قومیت سے حکومت افغانستان نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ سید اکبر کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں۔19 اکتوبر 1951ءکو انڈیا میں تعینات افغان سفیر نجیب اللہ نے اخباری نمائندوں کے سامنے واضح کیا کہ سید اکبر جدران ماضی میں اپنے قبیلے کا سردار رہ چکا ہے لیکن اس کے چھوٹے بھائی کی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کے جرم میں سید اکبر کو بھی اپنے بھائی کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیاتھا اور افغان حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے اس کی قومیت ختم کر دی تھی لہٰذا سید اکبر افغانستان کا باشندہ نہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سید اکبر نے برطانیہ میں پناہ لی تھی اور برطانوی حکومت نے نہ صرف اسے قبول کیا تھا بلکہ اسے تنخواہ بھی جاری کی گئی تھی اور تمام سرکاری مراعات دی گئی تھیں۔
اندرونی سازشوں کا سامنا لیاقت علی خان کو پہلے بھی کرنا پڑا تھا اور کمیونسٹوں اور آرمی کی ایک ٹیم کی لیاقت علی خان حکومت کا تختہ الٹنے کی زبردست سازش ناکام ہوئی تھی اور یہی ناکام عناصر تلملائے پھر رہے تھے۔۔ اس کے علاوہ لیاقت علی خان کا اپنے کابینہ کے وزراءخواجہ شہاب الدین اور سر ظفراللہ خان سے بھی تنازعہ چل رہا تھا۔ عوام کی بھی یہی رائے تھی کہ ان دو وزراءکو فوری طورپر کابینہ سے الگ کیا جائے کیونکہ یہ ملکی مفاد میں نہیں۔ چنانچہ ناکام سازشی عناصر میجر جنرل اکبر خان چیف آف جنرل اسٹاف، بریگیڈیئر ایم اے لطیف خان بریگیڈیئر کمانڈر کوئٹہ، کرنل محمد صدیق راجہ، کیپٹن نیاز محمد ارباب، کرنل ضیاءالدین ، کیپٹن حسن خان، لیفٹیننٹ کرنل نذیر احمد، گروپ کیپٹن محمد خان جنجوعہ، میجر خواجہ شریف ، فیض احمد فیض ایڈیٹر پاکستان ٹائمز، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر، بیگم نسیم اکبر خان، خواجہ محمد محمد، محمد حسین عطاءاور سر ظفراللہ خان گروپ آپس میں حالی موالی بن گئے۔
اخباری بیانات کے مطابق لیاقت علی خان مرحوم نے شہادت اور تقریر کرنے سے پہلے اسی ہی جلسے میں چند منٹ پہلے اپنے بااعتماد ساتھی بہادر خان ‘ جو سٹیج پر ان کے ساتھ ہی بیٹھے تھے‘ کو بتا دیا تھا کہ میں کابینہ سے دو وزراءخواجہ شہاب الدین اور سر چوہدری ظفراللہ خان کو بہر صورت علیحدہ کرنا چاہتا ہوں۔1953ءمیں اینٹی احمد ی تحریک کے سلسلے میں جو تحقیقاتی رپورٹ آئی تھی اس کے مطابق لیاقت علی خان یہ فائنل کر چکے تھے کہ وہ خواجہ شہاب الدین اور سر چوہدری ظفراللہ خان کو کابینہ سے علیحدہ کرنے والے تھے۔لیاقت علی خان نے اپنی شہادت سے چند روز قبل سر ظفراللہ خان کا ایک تقریری مسودہ ‘جو اسے سلامتی کونسل میں پڑھنا تھا ‘ کو پھاڑ دیا تھا اور اپنی طرف سے ایک مسودہ تیار کیا تھا ‘ جس نے اختلافات کو مزید رنگ دے دیا تھا۔
ان تمام باتوں کو تحقیقات میں شامل کر بھی لیا گیا تھا لیکن بعض ” شرفائ“ کے ناموں کا لحاظ رکھ کر اس صاف و شفاف قتل کیس کو سیدھے رخ پر ڈالنے کے بجائے اسے جان بوجھ کر اتنا پیچیدہ بنا دیا گیا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور یہ آسان کیس مستقل طورپر اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا ۔
لیا قت علی خان کے قتل کی تحقیقات فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لائی دور تک جاری رہیں لیکن صرف نام نہاد ‘ کیونکہ کوئی کمیشن یا تحقیقاتی ٹیم حقائق سے پردہ اٹھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ سب سے پہلے23 فروری 1952ءکو جسٹس منیر کمیشن نے اپنی رپورٹ حکومت پنجاب کے حوالے کی‘ جسے مرکزی حکومت نے 28 جون 1952ءکو شائع کرنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن سخت دباو ¿ کی وجہ سے حکومت نے رپورٹ شائع کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا اور رپورٹ غائب کر لی گئی۔ اخبارات کو اس کے چند حصے ہاتھ آئے لیکن اصل مواد نہ مل سکا۔
فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں قائم کمیشن نے 17 اگست 1952ءکو اپنی دوسری رپورٹ حکومت کو ارسال کر دی جو پہلے رپورٹ سے سراسر الٹ تھی۔ اس رپورٹ سے صاف عیاں تھا کہ لیاقت علی خان قتل سازش کو بری طرح دبایا جارہا ہے۔ اس رپورٹ کے37 فقروں سے لیاقت علی خان کی بیوہ رعنا لیاقت علی خان بالکل متفق نہ تھیں اور اسے غلط قرار دے رہی تھیں۔ رعنا لیاقت علی خان چیختی چلاتی رہیں کہ اس کے خاوند کو اندرونی سازش کے تحت قتل کیا گیا ہے لیکن ان کی کسی نے نہ سنی اور ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس منیر کمیشن کے رپورٹ کے بعد تقریباًایک ہفتہ بعد پاک فضائیہ کا ایک طیارہ جہلم کے قریب کسی نامعلوم حادثے کا شکار ہوگیا اور اس میں ایک نہایت ہی اہم شخصیت اور اعلیٰ آفیسر مرزا اعتزاز الدین احمد بھی مارے گئے‘ جو اسی ہی کیس کے سلسلے میں وزیرداخلہ سے ملنے کوئٹہ جارہے تھے۔۔
29 ستمبر 1952ءکو لیاقت علی خان قتل کے سلسلے میں ایک اور کمیٹی قائم ہوئی اور مشتاق گورمانی کی تجویز پر ایک برطانوی تحقیقاتی ایجنسی کو بھی اس کام پر مامور کر دیا گیا لیکن ان سب کی رپورٹس ( مداخلت یا کسی اور وجہ سے) بے بنیاد ثابت ہوئیں اور عوام نے اسے رد کر دیا۔ اکتوبر1952ءکو اس وقت کی حکومت نے ایک اور پینترا بدلا جس میں تفتیش کی ڈوری پنجاب سے ہٹا کر سرحد حکومت کے حوالے کر دی گئی اور اس کے سربراہ صوبہ سرحد کے آئی جی پی سردار عبدالرشید مقرر کر دیئے گئے(واضح رہے کہ سردار عبدالرشید پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں جو ایک ساتھ ہی آئی جی پی سرحد اور وزیراعلیٰ سرحد تھے)۔ سردرا عبدالرشید خود بھی ایک قابل ترین، نیک اور فرض شناس شخص مشہور تھے اور انہوں نے اس تفتیش کے لئے بھی صوبہ سرحد کے قابل ترین اور فرض شناس آفیسرز کا چناو ¿ کیا‘ جنہوں نے مختصر وقت میں ہی کیس کو نہایت تیزی سے آگے بڑھایا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق کل25 کیس سے متعلقہ اشخاص کے بیانات نوٹ کر لیے گئے اور تین مشتبہ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس تفتیش کے بارے میں70 فیصد یقین پیدا ہوگئی تھی کہ اس
کے ایک سرے تک پہنچا جائے لیکن۔۔۔۔۔۔ خفیہ ہاتھ ایک دفعہ پھر سرگرم ہوگئے اور سردار عبدالرشید کو فرض شناسی کی سزا دے کر اس کا تبادلہ کرادیا گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرے آفیسر اے بی اعوان کو آئی جی پی سرحد کا قلمدان سونپ دیا گیا‘ جس کی وجہ سے کامیاب ہوتی ہوئی تفتیش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اے بی اعوان نے بھی اس کیس پر کام کیا لیکن اس میں الجھن پیدا ہوگئی۔ 12 اکتوبر 1952ءکو ہی پنجاب کے گورنر اور مرحوم لیاقت علی خان کے دوست سردار عبدالرب نشتر نے تحقیقات کوازسرنو شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور رول55 کے تحت لیاقت علی خان کی حفاظت پر مامور پولیس آفیسر نجف خان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا حکم دیدیا۔اس کے لئے بھی جسٹس محمد منیر اور ممبر مالیات کمشنر اختر حسین پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیدیا گیا اور فیڈرل کورٹ ہی کے جسٹس محمد اکرم کو اس آفیسر کے خلاف محکمانہ تفتیش پر مامور کر دیا گیا۔ 17 اکتوبر 1952ءکو پولیس آفیسر نجف خان کو گھیر کر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ۔ نجف خان اس کھیل کے اہم کھلاڑی تھے اور تحقیقات کے مطابق نجف خان کے خلاف کچھ حد تک ثبوت اور الزامات درست بھی پائے گئے اور اس کے ذریعے اصل ہاتھوں تک پہنچا بھی جا سکتا تھا لیکن ایک دفعہ پھر تفتیش کی ناو ¿ کو سمندر میں ڈبو دیا گیا اور کنارے نہ لگنے دیا گیا۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935ءکی دفعہ(3)266 کے تحت یہ ضروری تھا کہ کسی سرکاری آفیسر پر مقدمہ چلانے اور اس پر بھرپور ہاتھ ڈالنے کے لئے پبلک سروس کمیشن سے مشورہ یا منظوری لی جائے۔ پبلک سروس کمیشن نے اپنی طرف سے کیس کا مطالعہ کرنے کے بعد الزامات کو غلط قرار دے دیا اور حکومت پنجاب کو سفارشات بھیج دیں کہ نجف خان کو اس کیس میں بالکل بے گناہ تصور کیا جائے اور اسے فی الفور بری الذمہ کیا جائے چنانچہ حکومت پنجاب ‘ جو اس کے لئے پہلے سے تیار بیٹھی تھی‘ نے پبلک سروس کمیشن کی ان سفارشات کو فوراً قبول کیا اور نجف خان صاف بچ نکلے۔ حتیٰ کہ پبلک سروس کمیشن نے نجف خان کے خلاف تحقیقات کا ریکارڈ شائع کرنے سے بھی روک دیا۔ پنجاب کے گورنر سردار عبدالرب نشتر اور وزیرداخلہ پاکستان اگرچہ مخلص انسان تھے لیکن اصل حکومت خفیہ ہاتھوں میں تھی جو تحقیقات کامکمل پہیہ جام کیے ہوئے تھے اور اسے کسی صورت آگے بڑھانے کے روادار نہ تھے‘ جس کہ وجہ سے یہ کیس ایک چیستان بن گیا۔
نجف خان کو کیس سے الگ کرنے پر پورے ملک میں بھرپور عوامی ردعمل سامنے آیا اور کئی مظاہرے بھی ہوئے لیکن کرنے والوں نے جو کرنا تھا وہ کر دکھایا۔ اس کے بعد جنرل ایوب کے دور میں لیاقت علی خان قتل کیس کے ساتھ بھرپور مذاق کیا گیا۔ یہاں تک کہ سرحد اور پنجاب کے حکمرانوں نے اپنے من پسند پولیس آفیسر ز کو ان نام نہاد تحقیقات کے لئے منتخب کرکے اسے مفت میں ترقیاں دے ڈالیں۔ بالفاظ دیگر اس کیس کو ترقیوں کے لئے استعمال کیا جانے لگا تھا۔
مزید برآں اس سازش کی بعض کڑیاں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد سے بھی ملتی تھیں۔ غلام محمد ہی وہ شخص تھے جن کی ایماءپر راولپنڈی سازش کیس تیار کی گئی تھی او رلیاقت علی خان حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام کوشش ہوئی تھی۔ دوسری طرف اس بات سے بھی اندازہ لگایا گیا کہ اس وقت روس نواز کمیونسٹ گروپ نے پاکستان میںا بھی اتنی طاقت حاصل نہیں کی تھی کہ وہ کسی حکومت کا تختہ الٹنے یا کسی وزیراعظم کو قتل کرنے کی جسارت حاصل کر سکتے۔ سازش میں سرظفراللہ خان گروپ اور کمیونسٹ گروپ کی اصل سرپرستی غلام محمد ہی نے کی۔بعد میں آنے والے جائزوں سے بھی اندازہ لگایا گیا کہ سارا کھیل گورنر جنرل غلام محمد کی شہ پر ہی کھیلا گیا اور حکومتی سطح پر تمام شواہد کو دبانے میں بھی اس کا زبردست ہاتھ تھا۔ لیاقت علی خان کے قتل ہونے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے راولپنڈی سازش کیس کی فائلیں تک غائب کر دیں اور سازش میں ملوث تمام ملزموں کو بحیثیت گورنر جنرل سرعام معافی دے دی۔ لیاقت علی خان کی حفاظت پر مامور نجف خان اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو حکومتی سطح پر انعام و اکرام اور ترقیوں سے بھی نوازا گی
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved