اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-04-2011

نجومیوں سے ہوشیار باش
تحریر: نجیم شاہ
عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ اختتام پذیر ہو گیا۔ ڈیڑھ ماہ سے پوری قوم جس بخار میں مبتلا تھی وہ بھی اُترچکا ہے۔ ہر میچ کے دوران میدان میں گیارہ گیارہ کھلاڑی نبردآما رہتے جبکہ وہ میچ کرکٹ کے گراﺅنڈ سے زیادہ باہر کھیلا جاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے سیمی فائنل سے قبل ہی الفاظ کی جنگ اور مائنڈ گیم کی ابتداءہو چکی تھی۔ دونوں ٹیمیں بھی نفسیاتی دباﺅ کا شکار تھیں کیونکہ پوری دنیا کی نظریں ایک ایسے سیمی فائنل پر لگی ہوئی تھیں جسے فائنل سے پہلے فائنل قرار دیا جا رہا تھا۔ کوارٹر فائنل تک قومی ٹیم نے بہتر پرفارمنس دکھائی البتہ سیمی فائنل میں بھارت سے شکست کھا گئی۔ بہرحال جس ٹیم نے اپنے اعصاب پر قابو پائے رکھا، جذباتیت کو نظرانداز کیا اور کھلے دل و دماغ سے کھیل کے میدان میں اُتری فتح بھی اُسی کا مقدر بن گئی۔ پاکستان کو سیمی فائنل میں شکست دے کر ہندوستان نے فائنل کیلئے کوالیفائی کیا اور پھر سری لنکا کو فائنل میں شکست دے کر دوسری بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں میں پاکستانی ٹیم نے کپتان شاہد آفریدی کی قیادت میں جو پرفارمنس دکھائی اُس پر پوری قوم کو اُمیدیں وابستہ ہو گئی تھیں کہ پاکستان سیمی فائنل میں ہندوستان کو با آسانی شکست دے کر فائنل کیلئے کوالیفائی کر لے گا۔ ٹیم نے ابتدائی میچوں میں جو کارکردگی دکھائی اس کے ساتھ ہی پاکستان کو فیورٹ قرار دے کر پیشنگوئیوں کا سلسلہ بھی چل نکلا۔ ہندوستانی طوطے نے تو ورلڈ کپ کے ابتدائی دنوں میں ہی پاکستان کو ورلڈ چیمپئن قرار دے کر ”شہادت“ حاصل کرلی تھی۔ شیوسینا کے ہاتھوں طوطے کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں کرکٹ شیدائیوں نے اُسے ”شہید“ کا رتبہ دیا تھا لیکن سیمی فائنل میں پاکستان کی شکست کے بعد یہ راز کھلا کہ طوطے کا ذہنی توازن درست نہیں تھا ۔ اب کرکٹ شائقین کا کہنا ہے کہ طوطا خود تو ”مردار “موت مرا لیکن جاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ بھی مذاق کر گیا۔
ایک ٹی وی رپورٹر تو ایک دربار کے سامنے بیٹھے ملنگ کے پاس پہنچ گیا اور پوچھا کہ کرکٹ کا سیمی فائنل کون جیتے گا۔ پہلے تو ملنگ نے حیرت سے پوچھا کہ کرکٹ کسے کہتے ہیں۔ جب اُسے بتایا گیا کہ یہ ایک کھیل ہے جواس وقت دو دشمن ملکوں کے درمیان ہونے والا ہے توملنگ جھٹ سے بولاکہ پاکستان ہی جیتے گا اور کس نے جیتنا ہے۔ کوارٹر فائنل تک ٹیم کی بہتر پرفارمنس کی بدولت پاکستان کو فیورٹ قرار دینے کی ایک ایسی ہوا چل پڑی تھی کہ نجومی، ملنگ اور فقیر تک میدان میں کود پڑے اور دھڑا دھڑ پاکستان کے ورلڈ چیمپئن بننے کی خوشخبریاں دینے لگے۔ کوئی علم الاعداد کی روشنی میں بتاتا رہا کہ کامیابی پاکستان کے قدم چومے گی جبکہ کوئی یہ کہتا رہا کہ ستاروں کی چال پاکستان کے حق میں ہے۔ کئی نجومیوں نے تو کھلاڑیوں کے یوم پیدائش سے اندازے لگا لئے تھے کہ کس کھلاڑی کا ستارہ بیٹنگ اور کس کا باﺅلنگ میں عروج پر ہے۔کوئی مختلف پرندوں سے فال نکلوا کر بیوقوف بنا تا رہا کہ قومی ٹیم ہی فاتح قرار پائے گی۔ سیمی فائنل میں سارا معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا اور ستاروں نے اپنی چال کا رخ ہی بدل لیا۔ یوں پاکستان کے ”نامور “نجومیوں اور ستارہ شناسوں کی پیشگوئیاں جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئیں۔ اس طرح نہ صرف علم نجوم کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی بلکہ نجومی خود بھی ”بے نقاب“ ہو گئے۔
سیمی فائنل سے قبل جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والے کوارٹر فائنل کے حوالے سے بھی ایک مو ¿قر روزنامے میں علم الاعداد کے ماہر شناس کا ایک مضمون نظر سے گزرا جسے پڑھنے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ دونوں ٹیموں میں سے جو بھی جیت جائے اس مضمون کا اصل مفہوم سمجھ سے باہر ہی رہے گا البتہ آخری لائنیں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم نیوزی لینڈ کو شکست سے دوچار کر دیگی۔جنوبی افریقہ کی ٹیم چونکہ فیورٹ قرار دی جا رہی تھی اور دنیا بھر کے جواریوں نے بھی اس کی جیت پر خوب پیسہ لگایا تھا۔ جواریوں کی طرح ماہر شناس کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ جنوبی افریقہ کی ٹیم ہی کوارٹر فائنل میں فتح سے ہمکنار ہوگی لیکن رب کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس دن جنوبی افریقہ کو شکست فاش ہو گئی۔ اس طرح نہ صرف ماہر شناس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا بلکہ جواری بھی ”کنگلے“ ہو گئے۔
پاکستان میں بیشتر لوگ علم نجوم پر یقین نہیں کرتے اور جو تھوڑا بہت کرتے ہیں کرکٹ کی پیشگوئیوں کے بعد اُن کا بھی کہنا ہے کہ نجومیوں کی بات پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ نجومیوں نے جس طرح قومی ٹیم کو سیمی فائنل اور فائنل کا فاتح قرار دیا یہ بھی ایک دھوکہ تھا۔ کیوں کہ جس طرح پاکستان کو فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا اگر قومی ٹیم فتح حاصل کرلیتی تو نجومیوں کا بھی کاروبار چمک اُٹھتا۔ عوام کو نجومیوں کی باتوں پر یقین ہو جاتا جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک کے مترادف ہے۔ قرآنی تعلیمات بتاتی ہیں کہ غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ علمائے کرام بھی علم نجوم پر یقین رکھنے کو گناہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسے نظریہ کے حامل لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور توہم پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ سیمی فائنل میں قومی ٹیم کی شکست کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے۔ پاکستان اگر جیت سے ہمکنار ہو جاتا تو بہت سے لوگوں کو علم نجوم کے ماہر شناسوں کی باتوں پر یقین ہو جاتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت شامل ہے۔
نجومی جھوٹے ، مکار اورباغی ہوتے ہیں۔ جو نجومی اپنی ذات کیلئے کچھ نہیں کر سکتا اور سادہ لوح لوگوں سے پیسے بٹورنے کا محتاج ہو وہ ”مستقبل شناس “کیسے ہو سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دینی مسائل سے ناواقفیت کی بناءپر لوگ ایسے نام نہاد ”غیب دانوں“ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ان غیب دانوں نے باقاعدہ کاروبار بنا رکھا ہے اور جاہل عوام کو لوٹنے کے لئے طرح طرح کے حربے اختیار کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض ان میں سے اتنے چالانک اور ہوشیار ہوتے ہیں کہ وہ سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگوں پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں اور بعض اپنے اس دھندے کو پھیلانے اور مزید نفع بخش بنانے کے لئے قرآن و سنت کے نصوص میں تحریف اور ان کی توہین کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔جو بھی نجومیوں کے نرغے میں آیا ہے، اس کی نارمل زندگی غیر فطری ہو گئی اور پھر زندگی بھر ان نجومیوں کے چنگل سے نجات نہیں پا سکا۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ مستقبل کے حالات و واقعات کو پیشگی معلوم کر لینا چاہتا ہے حالانکہ ایسے امور پردہ غیب میں ہوتے ہیں اور قبل از وقوع ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر انسان کا یہ تجسس ضرور رہتا ہے کہ وہ ان غیبی امور کے بارے میں کسی نہ کسی طرح رسائی حاصل کرلے۔ ایک نجومی کی غیب دانی کا بڑا چرچا تھا۔ بادشاہ نے اُسے اپنے دربار میں بُلایا اور پوچھا کہ میری عمر کتنی ہے۔ نجومی نے جواب دیا کہ آپ کی عمر کے صرف دس سال باقی ہیں ۔ یہ سُن کر بادشاہ بہت پریشان اور فکرمند ہوا۔ وزیر کو پتہ چلا تو اُس نے بادشاہ کے سامنے نجومی سے پوچھا تمہاری اپنی عمر کتنی ہے۔ نجومی نے فوراً کہا میری عمر کے بیس سال ابھی باقی ہیں۔ اس کی بات سُنتے ہی وزیر نے تلوار سے نجومی کی گردن اُڑا دی اور بادشاہ سے کہا ”اس جھوٹے کی بات پر آپ اتنے پریشان ہیں۔“
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved