اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-04-2011

جنت براستہ خودکش جیکٹ
تحریر: نجیم شاہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عوام کئی سالوں سے انتہائی کرب میں مبتلا ہے۔حکومتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے 2488واقعات ہوئے جن میں 3169افراد جاں بحق جبکہ 7479زخمی ہوئے جبکہ ڈرون حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔کتنا شارٹ کٹ راستہ ملا ہے ”ظالمان“ کو کہ ایک خودکش جیکٹ پہن کر مساجد، امام بارگاہوں، مدرسوں، درسگاہوں میں داخل ہو جائیں اور ریموٹ کا بٹن دباتے ہی سیدھے جنت میں چلے جائیں۔ مگر خبردار! یہ خودکش جیکٹ پہن کر شراب خانوں، ڈانس کلبوں، جوئے کے اڈوں، مندروں یا گرجا گھروں میں ہرگز داخل نہ ہونا ورنہ ٹھکانہ بہشت کی بجائے جہنم ہوگا۔ ایک طرف وہ لوگ جو ساری عمر عبادت کرتے رہیں، ماتھا رگڑتے رہیں، روزے رکھیں، زکوٰة دیں، صدقہ خیرات کریں حتیٰ کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا پورا خیال رکھیں اور پھر بھی شک ہی ہو کہ پتا نہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مغفرت ہوگی بھی کہ نہیں اور ایک طرف یہ بارودی جیکٹ خودکش حملے والی آسانی سے بہشت میں پہنچا دیتی ہے۔ شارٹ کٹ سے متاثرہ قوم نے جنت کے شارٹ کٹ کا طریقہ بھی ایجاد کرلیا ہے۔ سادہ نسخہ ٹرائی کریں اور ڈائریکٹ بہشت میں جائیں۔
سوالات تو ذہن میں بہت اُٹھتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک کی افواج کے خلاف بغاوت کر تے ہیں، حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں جبکہ اسلام میں واضح طور پر ایسی حرکات کو فساد فی الارض سے منسوب کیا گیا ہے۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جو معصوم بچوں کو تربیت دے کر ”جنت“ کی طرف روانہ کر دیتے ہیں لیکن خود جنت میں جانا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک اُلجھا ہوا معاملہ ہے جسے اربابِ اختیار اور ذرائع ابلاغ نے طالبان، انتہا پسند، عسکریت پسند یا شیعہ سُنی کہہ کر ٹالا ہوا ہے۔ دہشت گردی میں استعمال ہونیوالے بچے کون ہیں انکے اکثر پہلوﺅں پر ہمارے ذرائع ابلاغ اور ارباب اختیار کی نااہلی کی وجہ سے عوام کی نظر نہیں پڑتی۔ خودکش بمبار کئی پکڑے گئے مگر آج تک حکومت نے کوئی نتیجہ عوام کے سامنے پیش نہیں کیا جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ کس کی سازش ہے۔ یہ خودکش بمبار بھارتی ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں جو پاکستان میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ یہ لوگ ان کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں جو افغانستان میں موجود رہنے کیلئے جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ ان کے ایجنٹ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں ایٹمی پاکستان کسی صورت ہضم نہیں ہو رہا۔
دشمن نہ صرف پاکستان کے ارد گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی مورچہ بند ہو چکا ہے۔ ایک طرف ہندوستان اور نیٹو فورسز جبکہ اندر سے سی آئی اے، بلیک واٹر اور دیگر تنظیمیں صف آراءہیں۔ آج جن لوگوں کو دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے وہ تمام مدرسہ کے طلباءنہیں بلکہ ان میں جرائم پیشہ افراد قاتل، ڈاکو وغیرہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ کسی نے غور نہیں کیا کہ جو بچے کئی دہائیوں سے اغواءہوتے رہتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟ کئی غیر ملکی ”گوریاں“ لاوارث بچے عدالتوں کی مرضی سے گود لینے کے بہانے باہر لے جاتی رہی ہیں یہ بچے کہاں جاتے ہیں؟ ایدھی ہومز سے بہت سی فیملیاں بچوں کو گود لیتی رہتی ہیں کیا سو فیصدی یقین ہے کہ اُن میں سے کئی بچے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ نہیں لگتے ہوں گے؟ کیا جوان ہونے پر یہ بچے خودکش بمبار کے طور پر استعمال نہیں ہو رہے؟ کئی جرائم پیشہ افراد جن کے بچنے کی اُمید نہ ہو اپنے خاندان کیلئے بڑی رقم وصول کرکے بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ ایک اور بات جو آج تک کسی اخبار یا ٹی وی پر نہیں آئی یہ ہے کہ خودکش بمبار اپنی جان خود نہیں لیتے بلکہ ریموٹ کنٹرول کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو اسے اُڑا دیتا ہے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر خودکش بمبار خود کو نہ اُڑائے تو دوسرا اُڑا دیتا ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے وقت نہ صرف وہاں امن قائم تھا بلکہ پاکستان بھی محفوظ تھا۔ اس وقت نہ افغانستان اور نہ پاکستان میں کوئی خودکش حملے ہوتے تھے۔ اگر طالبان کا مقصد بے گناہ مسلمانوں کا خون کرنا ہوتا تو یہ کام اپنے دورِ حکومت میں آسانی سے کر سکتے تھے لیکن انہوں نے افغانستان میں امن قائم کیا۔ پاکستان میں دہشت گردی اُس وقت شروع ہوئی جب ہم نے امریکا کا ساتھ دیا۔ افغانستان میں کرزئی حکومت بننے کے ساتھ کئی طالبان نے پاکستان کے قبائلی علاقوں کا رُخ کیا۔ ان کے ساتھ طالبان کے روپ میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بھی آنا شروع ہو گئے۔ان لوگوں نے یہاں آ کر ایک طرف تو طالبان کا لبادہ اوڑھ لیا جبکہ دوسری طرف بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی پسماندہ قوموں کو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ طالبان کو اپنا من پسند دین پھیلانے میں مدد ملی جبکہ امریکا کو یہاں پیش قدمی کا موقع مل گیا کیونکہ اسلام دشمن عناصر یہ جانتے ہیں کہ اگر کسی قوم کو توڑنا ہو تو سب سے پہلے اُن کے دین پر حملہ کرو۔ کئی طالبان پاکستان کے اندر ہی امریکی ایجنٹ بنے جو امریکا سے امداد لے کر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ ان باغی طالبان کو اصلی طالبان ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
یہ جرائم پیشہ لوگ طالبان کے روپ میں بچوں کو اغواءکرکے اپنے کیمپوں میں تربیت دیتے ہیں تاکہ اُنہیں خودکش حملوں میں استعمال کر سکیں۔ سوات آپریشن کے دوران طالبان کے ایک کیمپ سے ایسے دوسو کے قریب لڑکے برآمد ہوئے جن کو خودکش حملوں کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر صرف چھ سال تھی۔ تربیت کے دوران ان بچوں پر سخت نفسیاتی دباﺅ ڈالا گیا تھا اور انہیں یقین تھا کہ خودکش حملے کے بعد وہ سیدھے ”بہشت“ میں چلے جائیں گے۔ ان بچوں کی اس قدر برین واشنگ کی گئی تھی کہ یہ راستے کی رکاوٹ بننے پر اپنے والدین کو بھی قتل کرنے کیلئے تیار تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن بچوں کو ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں کے بارے میں سوچنا چاہئے وہ جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں خودکش بمبار بن رہے ہیں۔ آخر یہ کونسے لوگ ہیں جو اپنے مقاصد کے لئے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ صرف پاکستان اور افغانستان ہی نہیں بلکہ یہ مسئلہ دیگر ممالک کو بھی درپیش ہے۔ یہ عام فہم بات ہے کہ ایل ٹی ٹی ای نامی تامل علیحدگی پرست گروہ بھی ماضی میں یہ طریقہ اپنا چکا ہے۔ نیپال کے شاہی نظام کے خلاف مزاحمت کرنیوالے ماﺅ نواز جنگجوﺅں نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کیلئے بچوں کا استعمال کیا۔ نیپال میں شاہی نظام کے خاتمے کے بعد ان جنگجوﺅں کے جو عارضی کیمپ قائم ہوئے ان میں سابق جنگجوﺅں کے علاوہ ایسے بچے بھی پائے گئے جن کو تربیت دیکر سپاہیوں میں تبدیل کیا گیا تھا۔ یہ بچے تقریباً دو سال تک ان کیمپوں میں رہے جب اقوام متحدہ کے مشن نے انہیں برآمد کیا۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکا میں سرگرم عمل شدت پرست بچوں کو خودکش حملوں کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو جہاں دیگر حقوق حاصل ہیں وہاں اُن کی عبادت گاہوں کو بھی تحفظ حاصل ہے پھر یہ کون لوگ ہیں جو صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی بلیک واٹر، شراب کے اڈوں، جواءخانوں، ناچ گانے کی محفلوں وغیرہ کو نشانہ کیوں نہیں بنایا۔ جولائی 2009ءمیں سوات اور فاٹا میں گرفتار طالبان سے بھارتی کرنسی اور اسلحہ کے علاوہ امریکا کے جاری کردہ آپریشن انڈیورنگ فریڈم کے کارڈ تک ملے ہیں۔ 2نومبر 2009ءکو پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ وزیرستان میں جاری آپریشن کے دوران بھارتی روابط کے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں۔ دہشت گردوں کے زیر استعمال بھارتی لٹریچر اور اسلحہ بھی پکڑا گیا ۔ اس کے علاوہ سوات اور وزیرستان آپریشن کے دوران طالبان کے روپ میں ایسے لوگ بھی پکڑے گئے جن کی ختنہ تک نہیں ہوئی تھی۔ جو آگ افغانستان کے پہاڑوں پر بھڑکائی گئی تھی وہ خیبرپختونخواہ کے پہاڑوں سے ہوتی ہوئی پنجاب کے میدانوں کا رُخ کر چکی ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ نہ ملک میں امان ہے نہ دنیا میں کہیں اور ہماری کوئی عزت ہے۔ ایئرپورٹوں پر ہمیں لائن سے الگ کھڑا کرلیا جاتا ہے، کتوں سے سونگھایا جاتا ہے، تلاشی کی خاطر کپڑے تک اُتار لیئے جاتے ہیں لیکن ہمیں پھر بھی شرم نہیں آتی۔ پھر بھی ہم نہیں سوچتے کہ اپنے گھر کو سدھاریں کہ اس ذلت سے نجات ملے۔
ہمیں اس وقت قوت حکمت و تدبر کے ذریعے معاملات کو سنبھالنے کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے بغاوتوں کے دور میں حکومت کو سنبھالا اور معاملات کو اس طرح حل کیا کہ ان کا چھوٹا سا عہد پورے بنوامیہ کے دورِ حکومت میں واحد دور نظر آتا ہے جو ہر قسم کی بغاوتوں سے خالی رہا۔ یہ بغاوتیں ظلم و ناانصافی سے قائم ہوتی ہیں۔ سب کو سب کا حق لوٹا دیں بغاوتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر خودکش حملہ اور اسکے بعد حکمرانوں کا سنگدلانہ انداز مزید خودکش حملہ آوروں کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ یوں پاکستان آہستہ آہستہ خودکش بمباروں کی فیکٹری میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر والوں کو بچوں کی کیٹگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ بچوں کو خودکش حملوں کیلئے استعمال کرنا انتہائی وحشیانہ جرم ہے اور یہ جرم کرنے والے انسان نہیں ہو سکتے۔ پاکستان نے جس دن اپنی سرزمین پر امریکی جنگ لڑنا بند کر دی، جس دن قبائلی عوام پر ڈرون حملوں کا سلسلہ ختم ہو گیا اُس دن ملک میں امن بھی آ جائے گا۔ جنرل ضیاءکے دور میں بم دھماکے تب ختم ہوئے تھے جب افغانستان کی جنگ بند ہوئی۔ قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کا بے گناہ اور معصوم شہری ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ ان ڈرون حملوں کے خلاف اب تو قبائلی سردار بھی ہتھیار اُٹھا چکے ہیں۔ ہم نے ہر گزرے دن کے ساتھ ان قبائلیوں کے زخموں پر کونسا مرہم رکھا۔ خدارا یہ منافقت چھوڑ دیں۔ کبھی انکے احساسات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی نفسیاتی، علمی حیثیت اور کلچر کو سمجھتے ہوئے یہ معاملات نبٹائے جائیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved