اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔26-04-2011

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور مستحقین
تحریر: نجیم شاہ

آج پیپلز پارٹی کا تیسرا دورِ حکومت چل رہا ہی۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی ہر سیاسی جماعت کا اپنے دور میں ایک مخصوص نعرہ رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ بہت مقبول تھا۔ اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں روٹی، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ ’’پیپلز پروگرام‘‘ بھی چلتا رہا جبکہ موجودہ دور میں اسی جماعت کا’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا نعرہ چل رہا ہی۔ملک کے غریب اور مستحق افراد کیلئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام 2008ء میں شروع کیا گیا۔ جس وقت یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا تب حکومت کا مؤ قف تھا کہ کوئی تیس لاکھ کے لگ بھگ افراد اس پروگرام سے مستفید ہونگے جبکہ موجودہ غربت سروے کے تحت مزید بیس لاکھ خاندانوں کو بی آئی پی ایس کے ذریعے معاشی امداد فراہم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہی۔اس طرح یہ تعداد بڑھ کر پچاس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔
یہ پروگرام شروع کرتے وقت چند شرائط بھی رکھی گئیں جن کے مطابق اس پروگرام سے غریب اور نادار افراد کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی مستفید ہو سکیں گے جن کی ماہانہ تنخواہ چھ ہزار روپے تک ہوگی جبکہ جو لوگ پنشن لے رہے ہیں یا بیت المال سے مستفید ہو رہے ہیں وہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جن افراد کے اکائونٹ غیر ملکی کرنسیوں میں موجود ہیں، جن لوگوں نے نادرا کے اوورسیز کارڈ بنا رکھے ہیں یا جن افراد کے پاس تین ایکڑ زرعی اراضی ہے اُن کو بھی اس پروگرام میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ابتدائی مرحلے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ شروع میں مستحق افراد کو رقم ڈاکخانے کے ذریعے فراہم کی جائے گی بعد ازاں جب اُن افراد کے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے کارڈ بن جائینگے تو پھر یہ رقم خود بخود ہی مل جائے گی۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ کسی رکن پارلیمنٹ کی طرف سے اگر کسی غیر مستحق فرد کو اس پروگرام میں شامل کیا گیا اور بعد ازاں اس کی نشاندہی ہو گئی تو اس کو پروگرام سے خارج کر دیا جائیگا۔
ساری دنیا میں فلاحی پروگرام سوشل سیکٹر میں شروع کئے جاتے ہیں جبکہ بی آئی ایس پی وہ پہلا پروگرام ہے جو حکومتی سطح پر شروع کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے جائیں تو اس سے اچھی اور بات نہیں ہو سکتی اور اس سے عوام اور بالخصوص کم آمدنی والے طبقے کو زیادہ فائدہ ہوگا۔بلاشبہ یہ موجودہ حکومت کا ایک انقلابی پروگرام ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہمہ تن مصروف عمل ہی۔ اس پروگرام کا مقصد کم آمدمی والے افراد خصوصاً خواتین کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ اپنے گھریلو معاملات خوش اسلوبی سے چلا سکیں۔ اس کے علاوہ وسیلہ حق، وسیلہ روزگار، لائف انشورنس، موبائل فون بینکاری اور لائف انشورنس جیسی غیر معمولی خدمات ظاہر کرتی ہیں کہ اس میں حکومتی نیک نیتی شامل ہے لیکن مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث مستحق اور نادار افراد کو کئی مشکلات درپیش ہیں۔
حکومتی پالیسی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم ملک بھر کے ڈاکخانوں کے ذریعے ادا کی جائے گی۔ بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن محترمہ فرزانہ راجہ کے مطابق حکومت نے ڈاکیوں کو ہر ایک منی آرڈر پر تین روپے اس کی تنخواہ کے علاوہ مقرر کئے ہیں۔ اس طرح اگر کوئی ڈاکیہ دو سو منی آرڈر تقسیم کرتا ہے تو اسے اس کی تنخواہ کے علاوہ ایک ہزار روپے دیئے جائیں گی۔ یہ اقدام محکمہ ڈاک کے عملے کو رشوت لینے سے روکنے کی حکومتی کوشش ہی۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی ڈاکیہ کسی مستحق سے رشوت طلب کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عندیہ دیا گیا ہی۔ اس سے پہلے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کے انکشاف پر محکمہ ڈاک کے کئی افسران نوکری سے فارغ جبکہ کئی معطل کئے جا چکے ہیں۔ بی آئی ایس پی کے تحت محکمہ ڈاک کا عملہ بغیر رشوت طلب کئے مستحق افراد کو رقم اُن کے گھروں کی دہلیز تک پہنچانے کا پابند ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہی۔
بی آئی ایس پی کے سلسلہ میں محکمہ ڈاک کی خدمات لائق تحسین ہیں کیونکہ اس طرح مستحق افراد تک آسانی سے رقم پہنچ جاتی ہے لیکن چند کالی بھیڑیں اس محکمہ کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔ اس وقت بھی ملک بھر کے بیشتر ڈاک خانوں میں محکمہ ڈاک کا عملہ مستحق افراد کے ساتھ توہین آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہی۔ مستحقین کو گھر کی دہلیز تک رقم پہنچانا تو دور کی بات ڈاک خانہ آنے والے افراد کو رشوت دیئے بغیر نہ رقم دی جاتی ہے اور نہ ہی حقائق بتائے جاتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں کئی مستحقین جن میں بوڑھی، معذور اور بیوائیں شامل ہوتی ہیں میلوں کا سفر طے کرکے ڈاک خانہ پہنچتے ہیں پھر بھی دادرسی نہیں ہوتی۔گزشتہ دنوں مجھے ایک ضروری کام کے سلسلے میں ضلع مانسہرہ جانا پڑا جہاں یونین کونسل بٹل کے پوسٹ آفس کے سامنے مستحق افراد کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھی۔ ان افراد سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت آٹھ ہزار روپے کی ادائیگی ہو رہی ہے جبکہ محکمہ ڈاک کا عملہ فی کس دو سو روپے رشوت لے کر رقم دیتا ہی۔ اگر عملہ کو رشوت نہ دی جائے تو پھر رقم تو درکنار حقائق بتانا بھی گوارہ نہیں کرتی۔ یہ تو صرف ایک چھوٹے سے علاقہ کی مثال ہے جبکہ اس پروگرام کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلا ہوا ہی۔ نہ جانے کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو ان زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہوں گی۔
معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ کئی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بی آئی ایس پی کے خود ساختہ نمائندے بن کر اس پروگرام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ حالیہ غربت سروے کے بعد کئی افراد نے انٹرنیٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستحقین کو لوٹنا شروع کر دیا ہی۔ سکور کارڈ ٹریکنگ کی سہولت جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ویب سائٹ پر مفت دستیاب ہے یہ افراد غریب اور نادار لوگوں کی ناخواندگی کا فائدہ اُٹھا کر اُنہیں لوٹ رہے ہیں۔ اگر کوئی فارم اہل قرار پاتا ہے تو اُس کا 100روپے وصول کرتے ہیں بصورت دیگر صرف چیکنگ کی صورت میں 20 سے 50 روپے تک وصولی ہوتی ہی۔ اس طرح کئی علاقوں میں یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور حرام کی کمائی دھڑا دھڑ پیٹ کا ایندھن بن رہی ہی۔ قدرت کا قانون اٹل ہے کہ ناجائز ذریعے سے کمائی گئی دولت کبھی راس نہیں آتی بلکہ یہ انسان کو مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں میں مبتلا کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ عوام سے قریبی رابطے کیلئے بی آئی ایس پی کے دفاتر یونین کونسل کی سطح پر قائم کئے جاتے تاکہ عوام اس طرح خوار نہ ہوتی۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلئے چیئرپرسن فرزانہ راجہ کی خدمات لائق تحسین ہیں کیونکہ وسیلہ حق، وسیلہ روزگار اور وسیلہ صحت پروگراموں کے تحت غریب رجسٹرڈ لوگوں کو مستفید کیا جا رہا ہے ۔وسیلہ حق پروگرام کے تحت کمپیوٹر قرعہ اندازی کے ذریعے مستحق خاندانوں کو نہ صرف تین لاکھ روپے تک کی امداد دی جاتی ہے بلکہ ان خاندانوں کو تربیت بھی دی جاتی ہی۔ اس کے علاوہ ہیلتھ انشورنس اور پیشہ ورانہ تربیت بھی قابل ذکر پروگرام ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کے تحت مستحق خاندانوں کو سالانہ پچیس ہزار روپے کی صحت انشورنس دی جاتی ہے جبکہ پیشہ ورانہ تربیت پروگرام کے تحت رجسٹرڈ خاندان کے ایک فرد کو کسی ہنر کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکی۔ صدر آصف علی زرداری بھی اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ وسیلہ حق پروگرام امداد نہیں بلکہ خود روزگار اسکیم ہے جس کے تحت حکومت غریبوں کی مدد کر رہی ہی۔ اس پروگرام کے تحت خواتین کو دو دو بھینسیں دی جائیں گے جن سے اُن کی مالی حالت بہتر ہونے لگے گی۔
اس پروگرام کے ذریعے موجودہ حکومت ملک کے لاکھوں نادار شہریوں کی مالی اعانت کر رہی ہے تاہم مختلف اخباری بیانات اور عوامی شکایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رقم اصل حقداروں کو نہیں مل رہی ہی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا اور ابتدائی طور پر چونتیس ارب روپے کی رقم غریب عوام میں تقسیم کرنے کیلئے مختص کی۔ ابتدائی طور پر اس پروگرام سے پینتیس لاکھ خاندان مستفید ہوئے جبکہ گزشتہ بجٹ میں یہ رقم بڑھا کر 70ارب روپے کر دی گئی۔اس پروگرام کے لئے فنڈ بڑھانے کا مقصد چھوٹے اور آسان قرضوں کے ذریعے غریبوں کو روزگار فراہم کرنا، معاشی سطح پر خودکفیل بنانا اور ان کی معاشی استعداد کار کو بہتر بنانا ہی۔ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم لائق تحسین ہے لیکن ایک خاندان کو ایک ہزار روپے ماہانہ ملنا آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ مہنگائی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے وہ ایک ہزار بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ گیا ہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کو تین برس مکمل ہو گئے ہیں۔موجودہ حکومت اگر واقعی ملک کے غریبوں کی مدد کرنا چاہتی ہے تو وہ اس پروگرام کو اتنا آسان بنائے تاکہ غریب اور عام آدمی آسانی سے اس سہولت سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ اس کے علاوہ وہ پنشن یافتہ افراد جن کی عمریں ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی ہیں اُنہیں بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے لوگوں کو بڑھاپا الائونس دیئے جاتے ہیں۔ حکومت کو مستحقین کیلئے رقم بھی بڑھانا چاہئے کیونکہ دو یا تین ہزار روپے سے غریب آدمی گھر کا چولہا تو دور کی بات بجلی کا بل بھی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کارڈ کے اجراء میں عوامی نمائندے مستحق افراد کو چھوڑ کر اپنوں کو نواز رہے ہیں۔ رشوت خوری کے جراثیم اب قوم کے خون میں شامل ہو چکے ہیں اور اس گندے خون کو صاف کرنے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ کالی بھیڑیں بے نقاب ہو سکیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے عمل کو شفاف سے شفاف تر بنایا جائے تاکہ معاشرے کا محروم طبقہ بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved