اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔04-05-2011

اُسامہ کی جعلی تصویر
تحریر: نجیم شاہ

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے ۔ اگر صحافی پوری دیانت داری کے ساتھ اپنا رول نبھائیں تو پھر تہلکہ مچ سکتا ہی، انقلاب آ سکتے ہیں اور حکومتیں اُلٹ سکتی ہیں۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت کو فروغ دینے کے لئے ٹی وی کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اخبارات، ریڈیو اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی نسبت ٹی وی ایک مؤثر ذریعہ ابلاغ بن کر سامنے آیا ہے اور میڈیا کی ترقی میں بھی اس کا کردار انتہائی اہم ہی۔ سن دو ہزار کے دوران پاکستان میں صرف تین ٹی وی چینلز تھے جو سرکاری سطح پر کام کرتے تھے جبکہ اب سرکاری اور پرائیویٹ چینلز کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی ہی۔ جہاں سنسنی خیزی اور نیوز بریکنگ ہمارے صحافتی کلچر کا حصہ بن چکا ہے وہاں چند اداروں کی پالیسیاں بھی نام نہاد خبروں کی صورت میں نظر آتی ہیں جو کہ پیشہ ورانہ صحافت کے ساتھ سنگین مذاق ہی۔ ہمارا نیوز الیکٹرانک میڈیا مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور خود کو مقبول بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ بعض ناقدین اس کے رپورٹنگ کے معیار پر سوال اُٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔
امریکی صدر بارک اوبامہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی جیسے ہی تصدیق کی پوری دنیا میں تہلکہ سا مچ گیا ۔اُسامہ کی ہلاکت میں کتنی سچائی ہے یہ تو وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا کیونکہ امریکی فوج کے ہاتھوں اس مشکوک ہلاکت پھر چند گھنٹوں بعد لاش کو سمندر برد کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہی۔اس سے پہلے بھی کئی بار ایسی خبریں آتی رہی ہیں کہ اُسامہ بن لادن ہلاک ہو چکے ہیں۔ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے مقابلے کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور خود کو عوام میں مقبول بنانے کی کوششوں میں اُسامہ بن لادن کی ایک ایسی خون آلود تصویر دکھائی جو ایک سال سے انٹرنیٹ پر گردش کرتی رہی۔ 2009ء میں جب اُسامہ بن لادن کو مارنے کا دعویٰ کیا گیا تو اس وقت مڈل ایسٹ کے ایک اخبار میں یہی تصویر چھپی جو بعد میں جعلی قرار دی گئی تھی۔ اس تصویر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ایڈوبی فوٹوشاپ کی مدد سے دو مختلف تصاویر کو ملا کر بنائی گئی ہی۔ بعد ازاں اس تصویر کے جعلی نکلنے پر ہمارے چینلز نے دکھانا بند کر دی ہی۔
ابھی تک سی این این، بی بی سی اور دوسرے نامور اداروں نے اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی کوئی تصویر پیش نہیں کی جبکہ ایک خبرکے مطابق امریکا ہلاکت کی تصاویر جاری کرنے پر غور کر رہا ہی۔ امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اُسامہ کی ہلاکت کا تصویری ثبوت مانگتے ہیں جس پر ثبوت جاری کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف امریکی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اُسامہ بن لادن کی لاش کی تصویر سے زیادہ سمندر برد کرنے کی تصاویر جاری کرنا زیادہ موزوں ہوگا۔امریکا کی طرف سے جب تک ایسی تصاویر جاری نہیں ہوتیں اُس وقت تک اُسامہ کی ہلاکت مشکوک ہی رہے گی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بھی اُسامہ بن لادن کی ایک پرانی تصویر کو ہلاکت والی تصویر کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے فرق واضح کیا ہی۔ دونوں تصاویر میں اُسامہ بن لادن کا منہ برابر کھلا ہوا ہی، دانت بھی دونوں تصاویر میں برابر دکھائی دے رہے ہیں جبکہ داڑھی کا رنگ اور سائز بھی برابر ہی۔ کئی سال گزرنے کے باوجود اُسامہ کی داڑھی اور بالوں کا رنگ وہی ہے جو پہلے تھا۔فرانچ ٹی وی چینلز بھی اس تصویر کے جعلی ہونے کا شبہ ظاہر کر رہے ہیں جبکہ ہمارے چینل غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کی جعلی تصویر سب سے پہلے کہہ کر چلاتے رہی۔
ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرکے کئی غلط فہمیوں کو جنم دیا جبکہ ایسا کرنے سے ہماری صحافت پر تنقید علیحدہ سے ہو رہی ہی۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا میڈیا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جدوجہد میں کامیابی اور برتری کے حصول کیلئے اس کے نتائج کی پرواہ تک نہیں کر رہا۔یہ بات درست ہے کہ صحافت خلاء میں رہ کر نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی خبر کا فی النفس ہی غیر جانبدار ہونا ممکن ہے لیکن معلومات دیتے وقت میڈیا پر یہ ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کردار کو سمجھتے ہوئے اطلاعات فراہم کری۔ پاکستان میں میڈیا ابھی تک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے جس کی بڑی وجہ صحافتی طبقے میں جرنلزم کی تعلیم و تربیت کا فقدان ہی۔ ملک میں الیکٹرانک میڈیا نے جس تیزی سے ترقی کی ہے بہت سے لوگ اس ترقی کو جمہوری روایات سے وابستگی کے ثمرات میں سے ایک قرار دیتے ہیں لیکن بعض ناقدین میڈیا کے منفی کردار پر بھی سوالات اُٹھارہے ہیں۔
آج کا میڈیا پاکستان کے معاشرے میں مثبت اور منفی دونوں کردار ادا کر رہا ہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کس حد تک مثبت اور کس حد تک منفی کردار ادا کر رہا ہے اور اس کے منفی کردار کے پیچھے کیا اغراض و مقاصد ہو سکتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اس کے ساتھ ساتھ اپنا ایک اور روپ بھی رکھتا ہے اور اس پر انگلیاں اس شدت سے نہیں اُٹھتیں۔ اس میں کوئی شک نہیں میڈیا پاکستان میں طاقت کا ایک ستون بن گیا ہے لیکن جب تک میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا اس کا منفی کردار ختم نہیں ہو سکتا۔ خبر کسی معاشرتی، اخلاقی، مذہبی یا کسی اور پہلو سے اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور اس کی اشاعت سے دوررس نتائج نکل سکتے ہیں اور اس خبر کا بتانے والا کوئی شریعت کی حدود و قیود سے لاپرواہ کوئی غیر سنجیدہ شخص ہے تو اس خبر کی اشاعت سے قبل تحقیق کرلینا ضروری ہی۔ غیر ذمہ دارانہ صحافت نہ صرف ملک کی بدنامی کا باعث بنتی ہے بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہی۔ اسامہ بن لادن کی ہلاکت والی فوٹو بھی تصویری خبر کے زمرے میں آتی ہی۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے جو تصویر پوری دنیا میں پھیلی اگر اسے دکھانے سے پہلے چھان بین کرلی جاتی تو آج ایسی نوبت نہ آتی جس طرح اب اس تصویر کے جعلی ثابت ہونے پر ٹی وی چینلز نے اسے دکھانا بند کر دیا ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved