اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔05-05-2011

قومی حکومت یا سیاسی منگنی
تحریر: نجیم شاہ
ایک عرصہ سے بعض سیاست دانوں اور مختلف حلقوں میں یہ بات گشت کر رہی تھی کہ ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جو اندرونی اور بیرونی محاذ پر عوامی مؤقف کا دفاع کر سکی۔008ء کے انتخابات کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد وٹو بھی ایک ایسی قومی حکومت کی خواہش رکھتے تھے جس میں مسلم لیگ ق بھی شامل ہو جبکہ ان انتخابات کے بعد سابق وفاقی وزیر غلام مصطفی کھر نے بھی پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے او ر ملک کو سیاسی بحران سے نکالنے کیلئے قومی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ فروری 2008ء کے انتخابات میں پی پی اور نواز لیگ نے اپنی پوری طاقت ق لیگ کا نام و نشان مٹانے میں لگا دی تھی اس کے باوجود یہ جماعت ملک کی تیسری بڑی پارٹی بن گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں چونکہ نواز لیگ بھی اتحاد کا حصہ رہی جبکہ ق لیگ ’’قاتل لیگ ‘‘کا خطاب پا چکی تھی اس وجہ سے دونوں بڑی پارٹیاں اس جماعت کے ساتھ بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ اُس وقت سیاست دانوں اور دیگر حلقوں کی طرف سے قومی حکومت کی تشکیل کیلئے جو آوازیں اُٹھ رہی تھیں وہ خاموش ہو گئیں لیکن آج ایک بار پھر ملک میں نئے سیاسی اتحاد اور قومی حکومت کے نام پر جاری تیز رفتار مشاورتوں کا سلسلہ جاری ہی۔
0 ملک کو اس وقت توانائی، معیشت اور امن و امان کے مسائل درپیش ہیں۔ موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے تین سال کا عرصہ ہو چکا ہی۔ ان برسوں میں دہشت گردی اور بم دھماکوں میں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں۔ تیل، بجلی اور گیس کا شدید بحران رہا جبکہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ۔اس کے علاوہ زرداری حکومت کو پچھلے کئی ماہ سے اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی دبائو کا سامنا ہی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کو ملک کے اندر مختلف پالیسیوں کے تناظر میں غیر مقبولیت کا سامنا ہی۔اس میں خاص طور پر پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اہم خیال کیا جا رہا ہی۔حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے میں بظاہر ناکام دکھائی دیتی ہی۔ اسی باعث غریب آدمی پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہی۔ مہنگائی انتہائی زیادہ ہونے سے غربت کی شرح حد سے زیادہ بلند ہو چکی ہی۔ ایسے حالات میں پیپلز پارٹی کی قیادت ملک میں قومی حکومت بنانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کیلئے مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کو اس میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، جماعت اسلامی سے بھی حکومتی سطح پر رابطے جاری ہیں ۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت کی یہ تجویز وسیع تر قومی مفاد سے مطابقت رکھتی ہے کہ ملک میں ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے یا پھریہ کوشش اپنی حکومت بچائو منصوبہ ہی۔
@ اس وقت ملک میں چار نکاتی قومی ایجنڈی، معیشت کی بحالی، امن و امان، توانائی اور مہنگائی سمیت دیگر درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اہم سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت بنانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ آئندہ چند روز میں اس حکومت کی تشکیل طے پا جائے گی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہی۔ خبر ہے کہ صدر زرداری کی طرف سے قاتل لیگ کا خطاب واپس لینے اور ق لیگ کو باقاعدہ حکومت میں شمولیت کی دعوت دینے پر دونوں جماعتوں کی ’’سیاسی منگنی‘‘ کچھ ہاں کچھ ناں کے اصول پر طے پا چکی ہی۔ ذرائع کے مطابق یہ منگنی ق لیگ کی شرائط وزارتوں، وزرائے مملکت، مشیروں، آئندہ انتخابات میں ممکنہ اتحاد، یار محمد رند کیخلاف انتقامی کارروائی روکنی، سابق وزیراعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم اور جام یوسف کے خلاف مقدمات ختم کرنی، مونس الٰہی کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی سے جان چھڑانے اور سینٹ کے الیکشن میں ممکنہ اتحاد بارے تفصیلی مشاورت کے بعد طے پائی ہی۔یہ بھی کہا جا رہا ہے حکومت نے ق لیگ کی جانب سے پیش کئے گئے تمام مطالبات کو تسلیم کرلیا ہی۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کیلئے وزارتیں بن چکی ہیں، وزیر نامزد ہو چکے ہیں، گاڑیاں لے لی گئی ہیں، شیروانیاں بھی سلوا لی گئی ہیں بس صرف نکاح کی تقریب باقی ہے جو کسی بھی وقت ہوسکتی ہی۔ اس نکاح کے بعد ق لیگ کو تحفے میں نائب وزیراعظم کا عہدہ، پانچ وزارتیں، سات وزرائے مملکت اور پنجاب کی گورنری دی جائے گی جبکہ اسکے اہم رہنمائوں پر سیاسی مقدمات بھی ختم کئے جائیں گی۔ اسکے علاوہ مسلم لیگ ق کی اہم شخصیت کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر بنانے کی پیشکش بھی فارمولے کا حصہ ہی۔
H پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے اس اتحاد کا سیاسی فائدہ کونسی جماعت اُٹھائے گی یہ تو حکومت کی مدت ختم ہونے اور آئندہ آنے والے الیکشن کے وقت معلوم ہوگا البتہ ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اس وقت دونوں جماعتیں اپنے اپنے حصے کے پتے سوچ سمجھ کر کھیل رہی ہیں جبکہ نواز لیگ اس تناظر میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہی۔ گزشتہ انتخابات کے بعد ق لیگ ایک مثبت اپوزیشن کا کردار ادا کرتی آ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی مقبولیت کا گراف بھی بڑھتا گیا ہے جس کا اندازہ ضمنی الیکشن میں صوبہ خیرپختونخواہ کے ضلع شانگلہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست اور پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے سابق صدر فاروق احمد خان لغاری کی وفات سے خالی ہونیوالی قومی اسمبلی کی نشست پر اس جماعت کے اُمیدواروں کی کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میںپیپلز پارٹی کی مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہی۔ اس کا اندازہ گلگت بلتستان کی ایک ایسی نشست سے لگایا جا سکتا ہے جو پیر کرم علی شاہ کے گورنر بننے کے بعد خالی ہوئی تھی۔اس نشست پر ہونیوالے ضمنی الیکشن کے دوران گورنر نے اعلیٰ قیادت کو یہ یقین دہانی تک کرائی کہ وہ سات بار اس حلقے سے منتخب ہوئے ہیں اس لئے پی پی کے علاوہ کوئی نہیں جیت سکتا لیکن معاملہ اس کے برعکس رہا اور وفاق پرست جماعتوں کے مقابلے میں وہ امیدوار کامیاب قرار پایا جو ایک آزاد ریاست کے نظریئے کا حامی ہی۔
پی پی اور ق لیگ کیلئے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس اتحاد کا سب سے زیادہ نقصان نواز لیگ کو ہوگا۔ نواز لیگ نے پی پی کو پنجاب حکومت سے نکال باہر کیا اور پیپلز پارٹی اب ق لیگ کے تعاون سے یہ بدلہ لینا چاہتی ہی۔حکومت کی جانب سے سرائیکی صوبے کی حمایت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کیونکہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں سے نواز لیگ بھاری مینڈیٹ لیکر ایوان تک پہنچتی رہی۔ اس اتحاد کے بعد اگلے انتخابات میں ق لیگ اور پی پی کو جنوبی پنجاب اور ہزارہ سے حمایت ملنے کا امکان ہی۔ نواز لیگ بھی یہ سمجھتی ہے کہ دونوں جماعتوں کے اتحاد کا مقصد اُن کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہی۔اس لئے سابق صدر جنرل پرویز مشرف بھی کہہ چکے ہیں قومی حکومت قائم ہونی چاہئے یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہی۔ق لیگ اور پی پی کے درمیان ہونیوالے اتحاد کے بعد آئندہ انتخابات دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ہوں گے جس کا سارا نقصان ن لیگ کو ہوگا۔ اس کے علاوہ عمران خان اور جماعت اسلامی بھی ن لیگ کا ووٹ توڑنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد کی بازگشت سنائی دینے کے بعد نواز لیگ بھی سیاسی اتحاد بنانے کیلئے ایکٹیو ہو گئی ہے لیکن فی الحال اُسے کوئی خاطر خواہ کامیابی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ موجودہ صورتحال میں عمران خان جس پوزیشن میں ہیں وہ حکومت یا ن لیگ میں سے کسی کے ساتھ شامل ہوکر اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگانے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہوں گی۔
اس اتحاد کا منفی پہلو یہ ہے کہ اگر قومی حکومت عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی تو عوام کے اندر اس ممکنہ اتحاد کے بعد مایوسی پھیلے گی۔ اس طرح حکومت کی گزشتہ تین سالہ اور آئندہ کی ناقص کارکردگی بھی ق لیگ کے پلے پڑے گی۔ اس جماعت کی مقبولیت کا گراف جس طرح بڑھا ہے اس کے بعد وہ آئندہ انتخابات میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی جبکہ پی پی اس ناکامی کا ذمہ دار قومی حکومت کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جائے گی۔اس اتحاد کے بعد پاکستان کے اندر نئے اتحاد جنم لے سکتے ہیں اور دونوں پارٹیاں بھی تقسیم ہو سکتی ہیں۔ ق لیگ کی ماروی میمن، طارق عظیم اور ایس ایم ظفر اس اتحاد کی پہلے ہی مخالفت کر رہے ہیں جبکہ پی پی کے رضا ربانی نے بھی ق لیگ کی حکومت میں شمولیت کی کھل کر مخالفت کر دی ہی۔ اس طرح یہ کڑوی گولی ق لیگ کے ساتھ ساتھ پی پی کو بھی نگلنا پڑے گی۔ اس فیصلے سے عین ممکن ہے کہ فیصل صالح حیات اور دیگر وزیر بننے کے بعد دوبارہ پیپلز پارٹی میں واپس آ جائیں۔جون میں آنے والا بجٹ قومی حکومت کیلئے بڑی آزمائش ہوگا کہ حکومت بجٹ کس طرح بناتی ہے اور کس طرح غریبوں کو ریلیف دیتی ہی۔ آج پی پی اور ق لیگ کے درمیان جو تعلقات استوار ہو رہے ہیں اس کا سارا کریڈٹ بھی ن لیگ کو جاتا ہے کیونکہ ماضی میں پی پی کو پنجاب حکومت سے نکالنے اور مسلم لیگ کے اتحاد کے سلسلے میں میاں برادران کی میں نہ مانوں پالیسی آج اُسے یہ راہ دکھا رہی ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved