اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔10-05-2011

میری زندگی، میری ماں
تحریر: نجیم شاہ

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو مائوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جبکہ متعدد ممالک میں اس دن کو منانے کیلئے الگ دن مخصوص ہیں۔ ناروے میں یہ دن فروری کے دوسرے اتوار ، جارجیا میں تین مارچ، ا فغانستان اورچند دیگر ممالک میں آٹھ مارچ، برطانیہ میں مئی کے آخری اتوارمنایا جاتا ہی۔ اسی طرح کئی ممالک نے اس دن کو منانے کے لئے اپنے مرضی کے دن مقرر کر رکھے ہیں۔یوں سال کے تقریباً ہر مہینے ہی یہ دن مختلف ممالک میں منایا جاتا ہی۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں ماں کے رشتے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اور ماں کے لئے عقیدت، شکرگزاری اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہی۔ کیونکہ ماں وہ تحفہ ہے جو صرف ایک بار ملتا ہی۔ ماں جیسی ہستی انسان کیلئے رونق، زندگی، محبت، ہمت، احساس، حوصلہ، دھڑکن، سکون اور سب سے بڑھ کر جنت ہی۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ماں جنت جانے کا ایک راستہ ہی۔دنیا کے ہر مذہب اور ملک میں بہت سے فرق پائے جاتے ہیں لیکن ماں کی محبت اور ماں کا احترام ہر جگہ یکساں ہی۔ ماں بہت عظیم جذبہ ہے جس کے بارے میں ساری دنیا کے مذاہب، دانشوروں و مفکرین کا اتفاق ہے جبکہ اس بارے میں کسی بھی ثقافت میں اختلاف نہیں ہی۔
ماں کی عظمت اسلام میں جس طرح بیان کی گئی ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کے لیئے جو جذبہ ہمارے دلوں میں ہے کیا اسے سمیٹ کر کسی ایک دن کیلئے مقرر کرنا ٹھیک ہی؟اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے ہر رشتے کے حقوق و فرائض کھول کر بیان کر دیئے ہیں اور ماں کے متعلق تو رب تعالیٰ نے خصوصی احکامات نازل کیئے ہیں۔ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کرنے سے جنت ملتی ہے اور اُنہیں محبت کی نظر سے دیکھنے سے ایک قبول حج کا ثواب ملتا ہے جبکہ اس کے برعکس مغربی معاشرے میں والدین بوڑھے ہونے تک کام کرتے رہتے ہیں اور ریٹائرمنٹ تک جو جمع پونجی اُن کے پاس ہوتی ہے اُس سے اپنی بقیہ زندگی کسی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہ کر گزار دیتے ہیں۔ جن والدین کے پاس جمع پونجی نہ ہو وہ اولڈ ایج ہومز میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں پر حکومت ان کے گزر بسر کا بندوبست کرتی ہی۔ اس دوران اگر بچوں کو فرصت ملے تو وہ کبھی کبھار اپنے والدین سے ملنے چلے جاتے ہیں جبکہ اگر فرصت نہ ملے تو وہ فون پر بات کرلیتے ہیں یا پھر کسی تہوار پر کارڈ بھیج دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان محرومیوں کو کم کرنے کیلئے مغرب میں مدر ڈی، فادر ڈی، ٹیچر ڈے وغیرہ کے رواج زور پکڑ رہے ہیں۔
ماں ایک ایسی ہستی ہے جس سے میری زندگی کی ہر سانس جڑی ہوئی ہے اور اسی زندگی کے سہارے آج میں اس موضوع پر لکھ رہا ہوں۔ دوسرے بچوں کی طرح میری زندگی بھی اپنی ماں کے بغیر ادھوری ہی۔اگر آپ ماں کی محبت دیکھنا چاہتے ہیں تو اُس کے سامنے آگ میں کود کر دیکھ لیں، کوئی چوٹ لگ جائے تو دیکھو اپنی ماں کی محبت کے جلوی، اِک ماں کا تڑپنا، اس کا ساری رات کا جاگنا اور اپنے رب سے رو رو کر سلامتی کی دعا مانگنا۔ ارے وہ لخت جگر کی خاطر اپنی جان کی پرواہ تک نہیں کرے گی اور اپنا سب کچھ لٹا دے گی۔ایک ماں سے کسی نے پوچھا اگر آپ کے قدموں سے جنت واپس لے لی جائے اور کہا جائے کہ اپنے اللہ سے اس کے بدلے کچھ اور مانگ لو تو آپ کیا مانگو گی؟ ماں نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ میں اپنی اولاد کا نصیب اپنے ہاتھ سے لکھنے کا حق مانگوں گی کیونکہ ان کی خوشی کے آگے میرے لئے ہر جنت چھوٹی ہی۔دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوتے ہیں اور ان میں جتنی بھی محبت ہو وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں مگر ماں کا رشتہ دنیا میں واحد ایک ایسا رشتہ ہے جو صرف آپ کو دیتا ہی دیتا ہے اور اس کے بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔ اگر کوئی انسان دنیا میں جنت پانا چاہتا ہے تو صرف ایک بار ماں کی عزت، بڑائی اور پاکیزگی کو سمجھ لے تو تاحیات اپنی ماں کے احسانوں کا بدلہ نہ چکا سکے گا۔
آج کے تیز ترین دور میں کیا ہم اپنی ’’ماں‘‘ کی خدمت اُسی طریقے سے کر رہے ہیں جو کہ ہمارا فرض بنتا ہی؟ یقینا مجھ سمیت بہت سوں کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔ ایک شخص نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر سات حج کروائے اور بولا آج میں نے اپنا حق ادا کر دیا تو غیب سے آواز آئی اے میرے بندی، ابھی تو تُو نے اُس ایک رات کا حق بھی ادا نہیں کیا جب تُو نے سوتے میں بستر گیلا کر دیا تھا تو تیری ماں ہی تھی جس نے تجھے تو خشک جگہ پر لیٹا دیا اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔ پھر ہم صرف ایک دن مدر ڈے منا کر یہ حق کیسے ادا کر سکتے ہیں۔کبھی میں سوچتا ہوں کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہے تو پھر خیال آتا ہے کہ دنیا کی خوبصورت ترین ہستی صرف ایک ماں ہی ہے جو بے حد پاکیزہ اور محبت کرنیوالی ہوتی ہی۔میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں سکون کی دولت نہ ملے تو اپنی ماں کی آغوش میں آ کر اپنی سوچوں، آہوں اور دکھوں کو نثار کرے گا اور ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں نہ ملی ہوگی۔ ماں جیسی ہستی اس کائنات کا ایک جز ہے جو اپنے اندر محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہی۔انسان کو جب بھی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنی ماں کو ہی پکارتا ہی۔اس کی مثال میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ چند سال قبل میرے بڑے بھائی کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دی۔ اُن کی موت اتنی اچانک تھی کہ باہر سے اندر آتے ہی گھر کی دہلیز پر گرپڑے اور فوری ماں کو آواز دی۔ حالانکہ اُن کے بیوی ،بچے بھی گھر میں موجود تھی، بہن اور بھائی بھی موجود تھے لیکن اُنہوں نے صرف ماں کو ہی پکارا۔ اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ ماں کا رشتہ تمام رشتوں سے مقدس اور پاکیزہ ہی۔
’’ماں‘‘ جنت کو پانے کا ایک آسان راستہ ہی۔ ویسے تو کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ مغرور ہو اور لوگ اُسے ناپسند کریں جبکہ ماں ایک ایسی دولت ہے جسے پانے کے بعد انسان مغرور ہونے میں فخر محسوس کرتا ہی۔ ماں ہو یا باپ دونوں کی نافرمانی بہت ہی بڑے گناہوں میں سے ایک ہی۔ اس سے انسان کی دنیاوی زندگی پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اپنے والدین کی نافرمانی اولادکو قلت اور ذلت میں مبتلا کر دیتی ہی۔ حسن صحبت کے اعتبار سے ماں کا حق باپ کے حق سے تین گنا زیادہ ہے البتہ اطاعت اور گھریلو نظم کو قائم رکھنے کے معاملات میں باپ کی رائے کو ہی ترجیح ہوگی۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ ’’میرے حسن صحبت کا سب سے زیاد حق دار کون ہی؟ ‘‘آپؐ نے فرمایا ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے پھر عرض کیا ’’پھر کون ہی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے تیسری بار عرض کیا ’’پھر کون؟’’ آپؐ نے فرمایا ’’تیری ماں‘‘۔ اس نے چوتھی بار عرض کیا ’’پھر کون؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تیرا باپ‘‘۔ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیری ماں، پھر تیرا باپ، پھر جو شخص زیادہ قریب ہی، وہ اسی قدر زیادہ مستحق ہی۔‘‘مذکورہ احادیث سے ثابت ہوا کہ ماں کا حق باپ سے بڑھ کر ہے کیونکہ آپؐ نے ماں کے حق کو تین بار قرار دیا اور اسکا سبب یہ ہے کہ ماں نے اپنی اولاد کیلئے بہت سی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کیا ہوتا ہے ۔
اگر ہم اپنے والدین کا احترام کرینگے تو بدلے میں ہمیں بھی ہمارے بچے عزت و احترام دینگے جبکہ اگر ہم اُن کے ساتھ برے طریقے سے پیش آئیں گے تو ہمارے ساتھ بھی عنقریب ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل ہی۔ میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں اپنی اولاد کو دل سے بددعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دُکھ دیا اور وہ ناراض ہو گئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا۔ ماں کی نسبت باپ کی بددعا خالی نہیں جاتی۔ باپ بھی اولاد کو کبھی بددعا نہیں دیتا لیکن اگر غصے میں منہ سے ایسی بات نکل جائے اور وہ لمحات قبولیت کے ہوں تو وہ بددعا بن جاتی ہی۔ماں کی قدر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ماں دنیا سے چلی جاتی ہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ماں کی وفات کے بعد اللہ پاک سے ہمکلام ہونے جا رہے تھے ۔ راستے میں ٹھوکر لگنے سے گرنے ہی لگے تھے کہ غیب سے ایک آواز آئی ’’اے موسیٰ! سنبھل کر چل اب تیرے پیچھے دعا کرنے والی ماں نہیں ہی۔‘‘ ماں کی دعائوں سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے جو کہ اپنی اولاد کی تمام تر بلائیں تک لے لیتی ہے اور اولاد کیلئے ٹھنڈی چھائوں کا درجہ رکھتی ہی۔
کوئی آفت اُترتی ہی نہیں اس واسطے مجھ پر
میری ماں کی دعانے آسمان کو روک رکھا ہی
بے شک ماں تو ماں ہوتی ہے اور ماں کی خدمت کرنا ہر اولاد کا فرض ہی۔ پھر کیا ماں کے لیئے ایک دن مقرر کرنے سے ذمہ داری پوری ہو جاتی ہی؟ یورپ کے معاشرے میں تو بوڑھے والدین اپنی اولاد کیلئے کچرے کا مال بن جاتے ہیں اور پھر اپنی بقیہ زندگی اولڈ ایج ہومز میں گزارتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جگہ جگہ ایسے نرسنگ ہومز موجود ہیں ہیں جہاں سرکاری خرچ پر بوڑھوں کی کفالت ہوتی ہے لیکن اب تو پاکستان میں بھی اولڈ ایج ہوم رواج پا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں کام کرنے والے افراد قابل تحسین ہیں کیونکہ ان کا مقصد یقینا انسانیت کی خدمت ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی ملک میں اولڈ ایج ہومز قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اولڈ ایج ہوم کا فروغ مغربی تہذیبی یلغار کا گھنائونا روپ ہے اور ہمارے معاشرے میں اس کا رواج پانا یہی تاثر دیتا ہے کہ یہاں بھی بہت سے والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکار ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں اپنے والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہومز کی راہ دکھانا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہی۔ماں کے پیار کا کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی ہوگا۔ جن کی مائیں موجود ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں توفیق دے کہ وہ اُن کی خدمت کرکے جنت کمائیں اور جو اس نعمت سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں دعا کی توفیق دے کہ وہ اپنی جنتوں کیلئے جنت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کریں۔ ماں وہ جنتی میوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا میں عنایت فرمایا ہی۔ اے رب العزت میری ماں اور باپ کو اپنی امان اور سلامتی میں رکھ اور اُن کے ساتھ اپنی رحمت کا معاملہ فرما۔ آمین ثم آمی
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved