اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔23-05-2011

قومی دفاع کو ایک اور جھٹکا
تحریر: نجیم شاہ
پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مگر پاک بحریہ کے پی این ایس مہران میں ہونے والے خوفناک واقعے نے نہ صرف پوری قوم کو خوفزدہ کر دیا ہے بلکہ ملک کے دفاعی نظام پر بھی کئی ایسے سوالات اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں ۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران پاک بحریہ کو چار بار نشانہ بنایا گیا جبکہ تین سالوں میں پانچ بار ملکی بحری حدود، سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ فوج نشانہ بنی۔ 4مارچ 2008ءکو لاہور میں پاکستان نیوی وار کالج میں دو خودکش حملے ہوئے جس میں 6افراد جاں بحق جبکہ 23سے زائد زخمی ہوئے۔ 26اپریل 2011ءکو کراچی کے علاقے ڈیفنس اور بلدیہ ٹاﺅن میں پاک بحریہ کی بسوں کے قریب دو دھماکوں میں 6افراد جاں بحق اور 37زخمی ہو گئے تھے۔ صرف دو دن کے وقفے کے بعد 28اپریل کوکراچی کے علاقے کارساز میں پی این ایس مہران کی بس کے قریب زوردار دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے میں پاک بحریہ کے چار اہلکار شہید ہوئے جبکہ ایک راہگیر بھی مارا گیا۔ 22مئی 2011ءکو شاہراہ فیصل پر واقع پی این ایس مہران پر دہشت گردی کے نتیجے میں ایک لیفٹیننٹ سمیت 10اہلکار شہید ہوئے جبکہ جن دو طیاروں کو تباہ کیا گیا اُن کی تیاری پر آٹھ ارب نو کروڑ روپے لاگت آتی ہے۔ پاک بحریہ کے کئی جوان اپنی جان پر کھیل کر دہشت گردوں کے راستے میں رکاوٹ بنے ورنہ تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا۔سولہ گھنٹے تک جاری رہنے والے اس آپریشن میں چار دہشت گرد مارے گئے جبکہ دو کے بھاگ جانے کی اطلاع ہے۔
پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ پاک بحریہ ملک کی بحری حدود، سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔یہ دنیا کی چند بہترین بحری افواج میں سے ایک ہے ۔ پاک بحریہ نہ صرف ملکی دفاع اور سمندری جرائم کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر رہی ہے بلکہ اس نے قدرتی آفات کے دوران امدادی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔اس کے جوانوں نے ہر مشکل وقت میں حوصلے اور ہمت سے ملک و قوم کا نام بلند کیا۔ افواجِ پاکستان بہادری اور جرا ¿ت کی لازوال پاسداری کرتے ہوئے اندرونی اور بیرونی خطرات سے مادرِ وطن کا دفاع کر رہی ہیں۔ پاک فوج ہر میدان میں عوام کے شانہ بشانہ، متحد اور مضبوط کھڑی ہے جبکہ پاک بحریہ بھی دہشت گردی کے کینسر کے خلاف ایک عرصے سے نبرد آزما ہے۔ جی ایچ کیو کے بعد پاک نیوی پر حملوں کا مقصد مملکت کو غیر مستحکم کرنا اور بحری فوج کی طاقت کو توڑنا ہے۔ دشمن نے پہلی فرصت میں ہی امریکا کی جانب سے فراہم کردہ دو ایسے پی تھری سی اورین جہاز تباہ کر دیئے جنہیں فضائی نگرانی، آبدوز پر حملوں اور زمینی حملوں کیلئے انتہائی مو ¿ثر تصور کیا جاتا تھا۔ یہ دونوں طیارے چوبیس گھنٹے پرواز کی صلاحیت رکھتے تھے۔ نیوی کے شہید جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر مادرِ وطن کا بھرپور دفاع کیا ورنہ تباہی کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد اتنے منظم بھرپور اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو کر اتنے حساس علاقے میں کیسے پہنچ گئے۔
پی این ایس مہران پاک بحریہ کا پہلا نیول ایئر اسٹیشن ہے۔ یہ بھی سُننے میں آیا ہے کہ ایئر بیس پر چین اور دیگر ممالک کے انجینئرز بھی موجود تھے۔ اُسامہ کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بعد جب ہر طرف سے پاکستان دباﺅ میں ہے اس موقع پر چین واحد ملک ہے جو پاکستان کی حمایت میں فرنٹ لائن پر آ گیا ہے۔ چین کے اشتراک سے تیار کردہ پی ایف ٹوئنٹی ٹو فریگیٹ پاک نیوی کے بحری بیڑے میں شامل ہے۔ پی این ایس شمشیر سطح آب سے سطح آب اور سمندر سے فضاءمیں دور تک مار کرنے والے میزائلوں اور جدید خود کار گنز سے لیس ہے۔ یہ جہاں ڈیتھ چارجز اور تار پیڈوز سے حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس پر اینٹی سب میرین ہیلی کاپٹرز بھی موجود ہیں۔ پی این ایس شمشیر سے پہلے چین کے اشتراک سے تیار کیا گیا پی این ایس ذوالفقار بھی پاک چین دوستی کی زندہ مثال ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی جانب سے فراہم کردہ بحری جہاز پی این ایس راہ نورد بھی پاک بحریہ میں شامل ہے۔یہ جہاز کیڈٹس اور سیلرز کی پیشہ ورانہ تربیت کیلئے برطانیہ سے حاصل کیا گیا ہے جو قبل ازیں ایچ ایم ایس ولیم کے نام سے برطانوی بحریہ میں شامل تھا۔ پاکستان نیوی کے مطابق یہ جہاز سیٹلائٹ کمیونی کیشن سسٹم، نیوی گیشن ریڈارز، بلٹ ان الیکٹرونک چارٹنگ سسٹم، کنٹرول سسٹم سمیت جدید سنسرز اور آلات سے لیس ہے۔ پاکستان نیوی کی طاقت میں چار نئے ریڈ نائن ای سی ہیلی کاپٹر اور ایک الیکٹرانک وار فیئر کرافٹ بھی شامل ہیں۔ پاک بحریہ کی طاقت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ٹاسک فورس 151کی کمانڈ سنبھال رکھی ہے ۔ کئی ممالک کی بحری افواج اس ٹاسک فورس کا حصہ ہیں جبکہ اس ٹاسک فورس کا دائرہ کار خلیج عدن اور صومالیہ کے ساحلی پانیوں پر مشتمل ہے۔ ٹاسک فورس 151کا مقصد بحری قزاقی کی روک تھام اور سمندروں پر قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ اپنی قوت میں اضافے اور ملک کے دفاع میں فوقتاً فوقتاً کئی میزائل تجربات بھی کرتی رہی ہے۔پاک بحریہ کے دفاع کو مضبوط کرنے میں چین نے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا۔ اس کو نشانہ بنانے کا ایک مقصد اس کی دفاعی طاقت کو توڑنا جبکہ دوسرا چین کو پاکستان کی حمایت سے دستبردار کرانا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ماضی میں بھی کئی چینی انجینئرز نشانہ بنے ۔ دفاع کے ساتھ ساتھ چین گوادر پورٹ کی تعمیر، سینڈک سے سونا نکالنے اور حب میں قیمتی پتھروں کی تلاش جیسے اہم منصوبوں پر کام کر رہا ہے ۔
پاکستان کی دفاعی قوت کو ختم کرنے کیلئے دشمن نبردآزما ہے۔ اس سے قبل مئی 2002ءمیں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر ہونے والے دھماکے میں پاکستان نیوی کے لئے کام کرنے والے گیارہ فرانسیسی انجینئرز اور تین پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔ پی این ایس مہران پر حملے کے دوران امریکا کا کردار بھی مشکوک ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اُن کے ماہرین اکثر اس بیس پر موجود ہوتے ہیں لیکن پینٹاگون نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملے کے وقت کوئی امریکی اس بیس پر موجود نہیں تھا۔یوں لگتا ہے کہ دشمن ایک طرف ہماری دفاعی قوت کو نشانہ بنا رہا ہے جبکہ ایسے حملوں سے چین کو پاکستان سے دوستی کا سبق بھی سکھا رہا ہے۔حکومتی رپورٹ کے مطابق اس ایئر بیس پر چین اور دیگر ممالک کے ماہرین بھی موجود تھے جنہیں آپریشن شروع ہوتے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔پاکستان میں غیر ملکیوں کو نقصان پہنچانا، انہیں اغواءکرنا، قتل کرنا اور دہشت گردی کا نشانہ بنانا یہ ثابت کرتا ہے کہ دشمن پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ پاک بحریہ نے بروقت آپریشن کرکے غیر ملکیوں کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ورنہ دہشت گردوں کا اصل منصوبہ بھی دفاعی قوت کے خاتمے کے ساتھ ان غیر ملکی ماہرین کو قتل کرنا ہو سکتا تھا۔
پولیس اور انٹیلی جنس حکام پاک نیوی پر ہونیوالے حالیہ حملوں کا ذمہ دار کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کو قرار دے رہے ہیں۔ نیوی کی بسوں پر حالیہ حملوں کی ذمہ داری بھی بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی لیکن سندھ پولیس کے سپیشل انویسٹی گیشن یونٹ کے مطابق ان حملوں میں لشکر رئیسائی بھی ملوث ہے۔ نیوی کے اہلکاروں کی بسوں کو نشانہ بنانے میں بلیک واٹر کے اہلکار بھی ملوث ہو سکتے ہیں جبکہ حکومت کالعدم تنظیموں کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں امریکیوں کا اپنا کردار وسیع تناظر میں طالبان والا ہی ہے اور پھر اس حقیقت سے کون انکار کریگا کہ ان طالبان اور القاعدہ کو بنانے والا خود امریکہ ہے۔ قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں بلیک واٹر کے اہلکاروں کے ملوث ہونے کے واضح اور ٹھوس شواہد موجود ہے۔ کوئی بھی محب وطن اپنے ہی ملک کے اداروں اور اہلکاروں پر حملے نہیں کر سکتا یہ مکمل طور پر ملک دشمن عناصر کا کام ہے۔سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان، عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ دشمن نے فوج کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جبکہ ایسے واقعات سے نمٹنے کیلئے حکومت وقت کی تمام تر حکمت عملی بے اثر دکھائی دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک دشمن وہ عناصر جو بلوچستان کی پاکستان سے علیحدگی چاہتے ہیں وہی عناصر پورے ملک کی سلامتی کو داﺅ پر لگانے کیلئے بم دھماکے کروا رہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران حقائق کے معاملے میں شترمرغ کی روش پر عمل پیرا ہیں ۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved