اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔30-05-2011

دلائی لامہ، چین کیخلاف ایک ہتھیار
تحریر: نجیم شاہ

تبت کے جلاوطن رہنماءاور بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کا اصل نام تیزین گیاتسو ہے ۔وہ 6جولائی 1935ءکو تبت کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے اور صرف دو سال کی عمر میں ہی دلائی لامہ کے منصب پر فائز کر دیئے گئے۔ قائداعظم، شاعرِ مشرق کی مانند دلائی لامہ بھی ایک خطاب ہے جسے خدا کا مجسم اور اوتار خیال کیا جاتا ہے۔ دلائی لامہ فوت ہونے سے قبل ہی پیشنگوئی کر دیتا ہے کہ آئندہ اُس کا جنم کس گھرانے میں ہوگا۔ اس عقیدے کے مطابق لامہ کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ مہینہ بعد اسکی روح ایک نوزائیدہ بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ ان ہدایات کے پیش نظر بدھ مت کے پیروکار بیان کردہ خاندان کے نوزائیدہ فرد کو دلائی لامہ کی مسند اقتدار پر بٹھا دیتے ہیں۔ دلائی لامہ کا خطاب سب سے پہلے منگول بادشاہ التان خان نے دیا تھا۔ بعد ازاں منگولوں نے پانچویں دلائی لامہ گوانگ لوپ سانگ گیاتسو کو تبت کے روحانی اور سیاسی رہنماءکے مرتبے پر فائز کر دیا۔ اس طرح موجودہ تیزین گیاتسو اس وقت بدھ ازم کی شاخ تبتی بدھ مت کے چودھویں دلائی لامہ ہیں۔
1950ءمیں چین کی آزادی کے بعد جب تبت کو چین نے اپنا حصہ قرار دیا تو تبتی بدھ مت کے پیروکاروں نے اس کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ 1959ءمیں دلائی لامہ چوبیس سال کی عمر میں تبت میں چین کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے تھے۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہروں نے انہیں رہنے کے لئے دھرم شالہ کا پہاڑی علاقہ پیش کیا جہاں وہ نہ صرف خود مقیم ہیں بلکہ اس علاقہ میں 1960ءسے ”مرکزی تبتی انتظامیہ“ نامی جلاوطن حکومت بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ یہ انتظامیہ خود کو تبتی باشندوں کی نمائندہ حقیقی لیکن جلاوطن حکومت قرار دیتی ہے۔ دلائی لامہ اپنی جلاوطنی کا نصف صدی سے زائد عرصہ بھارت میں گزار چکے ہیںاور اتنے طویل قیام کے بعد وہ خود کو بھارت کا فرزند تصور کرتے ہیں۔ اس دوران دلائی لامہ انسانی ذہنیت کے مختلف پہلوﺅں سمیت بہت سے موضوعات پر درجنوں کتابیں بھی لکھ چکے ہیںجبکہ 1989ءمیں دلائی لامہ کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
دلائی لامہ چینی حکومت کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اپنی زندگی میں تبت کو ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ چین کا مو ¿قف ہے کہ دلائی لامہ بدھ بھکشو کے لباس میں ایک بھیڑیا ہے جو چین دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر اسے توڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ دلائی لامہ کئی دہائیوں سے مغرب پر یہ راسخ کرنے کے لئے کہ وہ جو بھی کہہ رہے ہیں سچ ہے، دنیا سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ چین تبت کے حالات کا ذمہ دار بھی دلائی لامہ کو ٹھہراتا ہے۔ چین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دلائی لامہ امن کی بات کرکے دنیا کے سامنے فرشتہ سیرت اور صورت بنے ہوئے ہیں جو دھوکہ ہے۔ چین کا یہ بھی مو ¿قف ہے کہ دلائی لامہ کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ اُس وقت تک ہمیشہ سے کھلا ہے جب تک وہ تبت کی آزادی کے نظریہ سے دستبردار ہو کر اپنی سرگرمیاں بند نہیں کرتے اور تبت اور تاہیوان کو چین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ بھارت بظاہر تو دلائی لامہ کو امن، محبت، انسانیت اور برداشت کی علامت سمجھتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھارت کی چال تبت کو چین سے آزاد کرانا ہے۔ امریکا، فرانس، آسٹریلیا اور کئی دیگر ممالک بھی دلائی لامہ سے رابطوں میں رہتے ہیں جبکہ چین کئی بار دنیا کو خبردار کر چکا ہے کہ وہ تبت کے جلاوطن رہنماءکی میزبانی سے گریز کریں اور چین کے ساتھ تعلقات رکھنے والے تمام ممالک کو چاہئے کہ وہ دلائی لامہ کو اپنے ممالک کے دورے کی اجازت نہ دیں۔
دلائی لامہ میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ چین کے مو ¿قف کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک طرف بھارت نے اُسے اپنے ملک میں پناہ دی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف کئی امریکی صدور عوامی جمہوریہ چین کے احتجاج کو بروئے کار نہ لاتے ہوئے اُن سے ملاقاتیں بھی کر چکے ہیں۔ عالمی لیڈروں سے ملاقات کے دوران دلائی لامہ تبت کے پیچیدہ مسئلہ کی یکسوئی میں مدد فراہم کرنے کی درخواست بھی کرتے رہتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش نے اپنے دورِ اقتدار میں نہ صرف دلائی لامہ کو رواداری اور امن کی بین الاقوامی علامت قرار دے کر ملاقات کی بلکہ ایک تقریب کے دوران امریکی کانگریس کا سب سے اہم شہری اعزاز کانگریسنل گولڈ میڈل بھی دیا۔ امریکی صدر بارک اوبامہ بھی چین کی مخالفت کے باوجود دلائی لامہ سے دو بار ملاقات کر چکے ہیں۔ چین اوبامہ کی دلائی لامہ سے ملاقات کوعالمی اقدار اور امریکی وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔ اسی طرح فرانس بھی دلائی لامہ کو پیرس کی اعزازی شہریت دینے کا اعلان کر چکا ہے جبکہ کئی ممالک کے سربراہاں دلائی لامہ سے مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔
مغرب کے لئے ہردلعزیز شخصیت دلائی لامہ کو چین میں غدار اور باغی سمجھا جاتا ہے۔ چین نے تو اپنی آزادی کے فوری بعد ہی تبت کو اپنا حصہ قرار دیا ہے جبکہ وہاں بغاوت کئی سال بعد انیس سو انسٹھ میں شروع ہوئی۔ دلائی لامہ نے فرار ہو کر جیسے ہی بھارت میں پناہ حاصل کی اس کے ساتھ ہی تبت میں بغاوت کی تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت نے دلائی لامہ کو اپنی سرزمین علیحدگی سے متعلق سرگرمیوں کیلئے استعمال ہونے دی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی سرپرستی میں تبت کی ایک جلاوطن حکومت شمالی ریاست ہماچل پردیش میں قائم ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازع نے 1962ءمیں خونریز جنگ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ ہندوستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ دلائی لامہ کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن اس کے باوجود اُنہیں ایک متنازعہ ریاست اروناچل پردیش کے دورے کی اجازت دے کر چین کو یہ پیغام دے چکا ہے کہ اروچل پردیش اس کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ چین اس ریاست کو متنازعہ خطہ تصور کرتا ہے۔چین کا الزام ہے کہ تبت میں چین مخالف شورش کے پیچھے دلائی لامہ کا ہاتھ ہے جسے بھارت کی مکمل آشیرباد حاصل ہے لیکن دلائی لامہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ دلائی لامہ کو سیاسی پناہ اور اروناچل پردیش کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی وجہ سے چین بھارت کشیدگی میں کافی تناﺅ پیدا ہو چکا ہے جو مستقبل میں کسی بڑی جنگ کا پیشہ خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تبت کے مسئلہ پر چین اور امریکا میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ تبت اس کا ایک لازمی حصہ ہے اور کسی دوسرے ملک کو اس کے اندرونی معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے جبکہ امریکا کا مو ¿قف یہ ہے کہ دلائی لامہ تبت کے روحانی پیشوا اور حکمران ہے جسے اس کے روحانی اور سیاسی مقام سے محروم کرکے دربدر کر دیا گیا ہے۔دلائی لامہ نے بظاہر عالمی سیاست سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے لیکن چین اسے دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے ان کی ایک چال قرار دیتا ہے کیونکہ چین یہ سمجھتا ہے کہ دلائی لامہ کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد بھی اگر تبت کے حالات پہلے جیسے رہے تو دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ تبت میں آزادی کی تحریک وہاں کے باشندوں کی اپنی ہے ۔اس طرح تبت کے مسئلے پر چین کا مو ¿قف کمزور پڑ جائے گا اور وہ بھارت اور مغرب کو تبت کے حالات خراب کرنے پر مورد الزام نہیں ٹھہرا سکے گا۔ چین جلاوطن پارلیمنٹ کو بھی ایک غیر قانونی تنظیم کا نام دیتا ہے جبکہ بھارت کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی طرح تبت کے مسئلے پر چینی مو ¿قف کمزور پڑ جائے ورنہ متنازعہ ریاست اروناچل پردیش بھی اُس کے ہاتھ سے نکل سکتی ہے کیونکہ چین اپنے سیاحتی نقشوں میں اروناچل پردیش کو اپنے ملک کا حصہ اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ ظاہر کر چکا ہے۔بھارت یہ بھی سمجھتا ہے کہ اروناچل پردیش اُس کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر خالصتان، ناگالینڈ، آسام اور سکّم میں بھی بھارت مخالف علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ جائیں گی۔
تبت کے باشندے اس وقت مختلف نظریات میں بٹے ہوئے ہیں۔ بعض باشندے چین سے مکمل آزادی چاہتے ہیں جبکہ کچھ چین کے ساتھ رہنے کے خواہاں ہیں۔ چند ایسے بھی ہیں جو درمیانی راستے کی سوچ کے باعث اپنے جذبات دبا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں دلائی لامہ چین کے خلاف ایک ایسا ہتھیار بن چکے ہیں جس کی ڈور بھارت اور مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ ایک طرف ہندوستان اس کوشش میں ہے کہ تبت کو ایک آزاد ریاست کا درجہ مل جائے اور پھر بھارت کی طرف سے دلائی لامہ کو دی گئی مہمان نوازی کا سیاسی فائدہ اُٹھا کر متنازعہ ریاست اروناچل پردیش کو اپنا حصہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہو سکے جبکہ دوسری طرف تبت کے ساتھ لگنے والی بھارتی سرحد بھی محفوظ ہو جائے گی اور چین کی طرف سے بارڈر پر فوجوں کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔ یاد رہے کہ بھارت اور چین کی سرحد ہزاروں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے ۔ صرف متنازعہ ریاست اروناچل پردیش میں دونوں ممالک کی سرحد ایک ہزار کلو میٹر سے بھی طویل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلائی لامہ کی بھارت میں موجودگی سے دونوں ممالک کے درمیان لفظوں کی جنگ ایک عرصے سے جاری ہے بلکہ اب اس میں شدت بھی آ چکی ہے کیونکہ بھارت نے شروع دن سے اب تک تبت کو ایک آزاد خطے کی حیثیت سے تسلیم کیا ہوا ہے۔
بھارت کے ساتھ دلائی لامہ اور اسکے ساتھیوں کی میزبانی جہاں دونوں ممالک کے درمیان موجود تنازعات میں سرفہرست ہے وہاں دلائی لامہ کو چین کیخلاف ایک ہتھیار کے طور پر امریکا اور دیگر کئی ممالک بھی استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ چین اور امریکا کے درمیان تبت اور تائیوان کے مسئلے پر اختلافات بدستور موجود ہیں۔ اس مسئلے پر چین کا مو ¿قف اس لئے بھی مضبوط ہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تائیوان کو علیحدہ ملک کی شناخت کے طور پر رکنیت دینے کی قرارداد بھاری اکثریت سے مسترد کر دی تھی۔ 192رکنی جنرل اسمبلی میں صرف چالیس ممالک نے تائیوان کے حق میں ووٹ دیئے تھے ۔ امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس کو بھی اس قرارداد کے مخالف ووٹ دینے پڑے جسے چین کے مو ¿قف کی فتح تصور کیا گیا۔ تائیوان کیخلاف امریکی فوجی اسلحوں کی فروخت اور تبت کے جلاوطن لیڈر دلائی لامہ کی امریکی صدور سے ملاقاتوں کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکا تائیوان کے لئے اپنے اسلحے کی فروخت کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ واشنگٹن تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو جاری رکھے گا اور اس کی مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھتا ہے جبکہ چین یہ سمجھتا ہے کہ امریکا تائیوان کو اسلحہ فراہم کرکے چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تائیوان اپنے مادرِ وطن چین سے علیحدہ ہونا چاہتا ہے یا نہیں مگر امریکا اس کا شدید خواہشمند ہے۔ چین یہ بھی سمجھتا ہے کہ مغرب دلائی لامہ کے ذریعے تبت کے معاملے پر چینی مو ¿قف کو کمزور کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے ساتھ تعلقات رکھنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دلائی لامہ کو اپنے ہاں بلا کر عوامی جمہوریہ چین سے اپنے تعلقات پیچیدہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ماضی میں عالمی ورلڈ کپ کے موقع پر جوہانسبرگ میں ”دنیا سے نسل پرستی کے خاتمے میں فٹ بال کا کردار“ کے موضوع پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں جنوبی افریقہ نے دلائی لامہ کو شرکت سے روک دیا تھا جس پر کئی ممالک نے اُسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مغرب کا یہ مو ¿قف رہا کہ چین چونکہ جنوبی افریقہ کا ایک بڑا تجارتی پارٹنر ہے اس لئے اُس نے دباﺅ ڈال کر یہ فیصلہ کروایا جبکہ جنوبی افریقہ نے چینی دباﺅ کا الزام مسترد کر دیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ دلائی لامہ اس وقت اپنے ہزاروں حامی تبتی پناہ گزینوں کے ہمراہ ہماچل پردیش کے علاقے دھرم شالہ کے پہاڑی علاقے میں مقیم ہیں۔ دلائی لامہ بھارت کیلئے کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تبت سے جلاوطنی اختیار کرکے دلائی لامہ کا جو بھی حامی بھارت آتا ہے اُسے پہلے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ کہیں وہ چین کے لئے ایجنٹ کا کردار تو ادا نہیں کر رہا۔ کرماپالاما تبت کے جلاوطن بدھ مت رہنماﺅں میں تیسرے نمبر پر ہیں اور ان کا نام دلائی لامہ کے ممکنہ جانشین کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ 1999ءمیں تبت چھوڑ کر بھارت آنے والے کرماپالاما کے بارے میں بھارتی میڈیا نے کچھ عرصہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر چین کا ایجنٹ ہے۔ کرماپالاما اس وقت بھی دیگر تبتی رہنماﺅں کے مرکز دھرم شالہ میں مقیم ہے۔ دلائی لامہ نے خود تو تبت سے جلاوطنی اختیار کرکے دھرم شالہ میں سکونت اختیار کرلی البتہ اُن کے بعد تبت کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا پنجن لاما ہے جو اب بھی تبت میں موجود ہے۔ پنجن لامہ کو مہاتما بدھ کا مظہر اور دلائی لامہ کا مرشد تصور کیا جاتا ہے اور اُس کے ما تحت تمام لامہ ہوتے ہیں جو خانقاہوں میں رہتے ہیں۔ بدھ ازم کی جو شاخ تبتی بدھ مت کہلاتی ہے اس کے پیروکار تبت کے ساتھ ساتھ بھارت، نیپال، بھوٹان، اروناچل پردیش، لداح اور سکّم میں بھی موجود ہیں جبکہ روس ، شمالی چین اور منگولیا میں بھی اس مذہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ بدھ مت ایک ایسا مذہب اور فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرز عمل کو محیط کیا ہوا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved