اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔03-06-2011

سیاچن گلیشیر پر ناکام مذاکرات
تحریر: نجیم شاہ
ہمالیہ کے پہاڑوں سیاچن گلیشیر کو دنیا کے بلند ترین میدانِ جنگ ہونے کا اعزاز حاصل ہی۔ یہ کرہ ارض کا دوسرا بڑا گلیشیر ہے جو نہ صرف اس خطے میں ماحول کو کنٹرول کرتا ہے بلکہ پاکستان اور بھارت کے لئے پانی کی ضروریات پوری کرنے کا سبب بھی ہی۔ دنیا کا طویل ترین گلیشیر فریڈشینکو ہے جو تاجکستان میں واقع ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کی سرحد پر واقع 70کلومیٹر لمبا سیاچن گلیشیر دنیا میں قطبین سے باہر دوسرا طویل ترین گلیشیر ہی۔ ہمالیہ میں کم و بیش پندرہ ہزار گلیشیر موجود ہیں جن میں تقریباً بارہ ہزارہ مکعب کلو میٹر پانی کا ذخیرہ موجود ہی۔ ا ن برف پوش چوٹیوں سے بہت سے دریا نکلتے ہیں جو موسمی دریائوں کے برعکس سارا سال چلتے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دریا برصغیر پاک و ہند کے دو دریائی نظاموں میں سے کسی ایک میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مغربی دریا سندھ طاس کا حصہ ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے جبکہ اس کے معاونین میں جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے علاوہ دوسرے بہت سے چھوٹے دریا شامل ہیں۔ ہمالیہ کے دیگر دریائوں کی اکثریت گنگا برہما پترا طاس میں شامل ہے ۔ اس طاس کے سب سے بڑے دریا گنگا اور برہما پترا ہیں۔ ہمالیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایشیا کے دس سب سے بڑے دریا اس سلسلے یا اس سے ملحقہ علاقوں سے نکلتے ہیں اور لگ بھگ ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگی کا دارومدار اِن دریائوں پر ہی۔
سیاچن گلیشیر پاکستان اور بھارت دونوں کے لئے جغرافیائی، سیاسی اور فوجی اہمیت کا حامل علاقہ ہی۔ قراقرم ہائی وے جو پاکستان اور چین کے درمیان واحد زمینی رابطہ ہے سیاچن سے صرف 74کلومیٹر کے فاصلے پر ہی۔ اس وجہ سے یہ علاقہ پاکستان کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس راستے سے بھارت گھس کر دنیا کی بلند ترین چوٹی کے ٹو کے قریب پہنچ سکتا ہے جبکہ دوسری طرف قراقرم کو خطرہ ہے جو پاکستان اور چین کو آپس میں ملاتا ہی۔ اس کے علاوہ یہ گلیشیر پاکستان کے لئے واٹر ٹینک کی حیثیت رکھتا ہے جو ملک کے دریائوں میں پانی کی روانی کا اہم ترین ذریعہ ہی۔ چند سال قبل کے اعداد و شمار کے مطابق سیاچن گلیشیر میں موجود برف کا حجم دو کھرب کیوبک میٹر تھا اور ماہرین کے مطابق اُس برف سے حاصل ہونے والے پانی سے پاکستان کے سب سے بڑے مجوزہ کالا باغ ڈیم کی جھیل کو چھ ہزار مرتبہ بھرا جا سکتا ہی۔بھارت کے لئے یہ خطہ اس لئے اہم ہے کہ سیاچن گلیشیر کی برف پوش پہاڑیاں دنیا کا سب سے اونچا میدانِ جنگ بنی ہوئی ہیں اور اس علاقے میں بھارتی فوج کی موجودگی سے گلگت سے چینی علاقے تک پاکستان کا رابطہ نہیں ہو سکے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان زمینی راستہ کٹ جانے کی وجہ سے بھارت نہ صرف خطے کا تھانیدار بن بیٹھے گا بلکہ دنیا کے اونچے میدانِ جنگ پر موجود ہونے کی وجہ سے اسے پاکستان اور چین پر برتری حاصل ہوگی۔ دنیا کا سب سے اونچا فوجی محاذ ہونے کی وجہ سے اس علاقے پر چین اور امریکا کی بھی نظریں لگی ہوئی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاچن گلیشیر کا تنازعہ 1984ء میں شروع ہوا جب ہندوستان اپنی فوجیں سیاچن میں اُتار کر ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیا۔ اُس وقت سے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اس محاذ پر جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ کارگل کی جنگ بھی سیاچن گلیشیر پر بھارت کے قبضے کے زمانے سے شروع ہونے والی لڑائی کا ایک حصہ تھی جبکہ بعد میں 2003ء سے دونوں ملک جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر سیز فائر پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔سیاچن کے علاقے میں سیز فائر پر عملدرآمد کے باوجود یہ برف پوش پہاڑیاں اب بھی دنیا کا سب سے اونچا محاذ جنگ بنی ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں کی افواج آمنے سامنے ہیں۔ سیاچن پر دونوں ملکوں کے کنٹرول کی پوزیشن میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ انتہائی دشوا ر گزار جغرافیائی خطہ ہے جہاں درجہ حرارت ہمیشہ نقطہ انجماد سے بہت زیادہ نیچے ہوتا ہی۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے دوران یہاں معمول سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔ اس محاذ پر جہاں باہمی تصادم میں ہزاروں فوجی مارے گئے وہیں سردی اور خراب موسم کے سبب بھی بے شمار ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ دونوں ممالک جس طرح اپنے فوجی بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس علاقے کی چوکی میں خرچ کر رہے ہیں اس سے اِن ملکوں کی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی یہ کوشش ہے کہ اس معاملے پر کوئی پیش رفت ہو کیونکہ دونوں ملک یہ سمجھتے ہیں کہ اس علاقے میں فوج کی موجودگی پیسے کا ضیاع ہی۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ تجویز زیر غور ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ سیاچن گلیشیر کو مستقل طور پر غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے اور دونوں ممالک وہاں سے اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ 1984ء میں اس علاقے کے ایک بڑے حصے پر بھارت کے قبضے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس میں سیاچن گلیشیر پر فوج کی تعیناتی کے سلسلے میں بھارتی قبضے سے قبل کی پوزیشن بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ شملہ معاہدے میں بھی واضح طور پر یہ تحریر ہے کہ کوئی ملک ایک دوسرے کی سرحدوں یا لائن آف کنٹرول کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریگا۔ اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے دونوں ملکوں کے دفاعی سیکرٹریوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ پاکستان کے صدر ضیاء الحق اور بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور میں 1985ء میں شروع ہوا۔ اُس کے بعد سے اب تک مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیںلیکن تاحال اس مسئلے پر کوئی اہم پیش رفت نہ ہو سکی۔بھارتی فوج چونکہ سیاچن گلیشیر کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اس وجہ سے ہندوستان اس گلیشیر کی فوجی حد بندی چاہتا ہے جبکہ پاکستان اس علاقے پر کسی طور بھی بھارت کا قبضہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہی۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت سیاچن گلیشیر کے جس علاقے پر قابض ہے وہ پاکستان کا حصہ ہے اور 1984ء سے قبل یہ علاقہ بھارتی فوج سے پوری طرح آزاد تھا لہٰذا بھارت کو چاہئے کہ وہ اپنی فوج کو 1984ء سے قبل کی پوزیشن پر لے جائی۔ بھارت دنیا کے سامنے ایک طرف یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ وہ سیاچن گلیشیر کو کوہِ امن بنانا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی بری فوج متنازعہ سیاچن گلیشیر پر پاکستان سے مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیتی ہی۔ سب سے اہم بات قیادت میں مسئلہ کے حل کی نیت ہوتی ہے لیکن بھارت کی میں نہ مانوں والی پالیسی ابھی تک ان مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنی ہوئی ہی۔
D پاکستان او ر بھارت یہ سمجھتے ہیں کہ سیاچن گلیشیر مسئلے کے حل سے دونوں ملکوں کا فائدہ ہی۔ دونوں ممالک نہ صرف اس محاذ پر اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ کرتے ہیں بلکہ اتنی اونچائی پر اپنے فوجیوں کو بھیجتے ہیں جہاں سب سے بڑا دشمن اُن کا موسم ہوتا ہی۔ پاکستان اور بھارت کو سیاچن سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لینا چاہئے اور اس مقصد کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جانی چاہئی۔ سیاچن کے گلیشیر پانی کا منبع ہیں وہاں فوج کی موجودگی عوامی پیسے کا ضیاع ہی۔ ان اخراجات کی وجہ سے عوام پر بوجھ پڑتا ہے اور فوجیں واپس بلا کر اخراجات میں بھی کمی لائی جا سکتی ہی۔ جتنا پیسہ ان پہاڑوں کی چوکیوں پر ضائع ہوتا ہے اگر یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر لگے تو دونوں ملکوں میں بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہی۔ دونوں ملک یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس گلیشیر پر جنگ سے زیادہ ہلاکتیں سردی کی شدت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔پاکستان بھارت کے ساتھ بامقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان ماضی میں جتنے بھی مذاکرات ہوئے بھارت کی اندرونی سیاسی جماعتیں اور بری فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اُس نے سیاچن گلیشیر کے جس حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے پاکستان اُسے بھارت کا حصہ تسلیم کرے تبھی مستقل سرحد کا تعین ممکن ہو سکے گا جبکہ پاکستان کے لئے یہ ایک گھاٹے کا سودا ہی۔
دونوں ممالک کے درمیان امن و سلامتی، دہشت گردی، جموں کشمیر، وولر بیراج، سرکریک اور سیاچن گلیشیر سمیت کئی دیگر مسائل پر بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بہت سے ایسے مسئلے ہیں جن پر عوام کی توجہ زیادہ ہے جب تک وہ حل نہیں ہوتے مشکل مسائل پر بات آگے بڑھانے سے سیاسی طور پر حکومتوں کو دِقت ہو سکتی ہی۔سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سیاچن کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق ہو گیا تھا لیکن سیاسی حالات میں تبدیلی کے سبب ایک باضابطہ سمجھوتے کی شکل نہیں لے سکا۔ سیاچن گلیشیر پر پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی موجودگی سے یہ گلیشیر تیزی سے پگھل رہا ہی۔دونوں ممالک اپنی فوجوں کی واپسی سے ہی اس گلیشیر کو پگھلنے سے روک سکتے ہیں۔ اس گلیشیر کے پگھلنے کا سبب فوجی دستوں کی تعیناتی اور مستقل چھائونیوں کی تعمیر ہیں۔ حالیہ سالوں میں سائنسدانوں نے گلیشیر کے پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہی۔ اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات بہت سالوں تک پوری طرح واضح نہیں ہوں گی، اس سے شمالی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے دریائوں میں ان گلیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ سیاچن گلیشیر صرف پاکستان اور بھارت کے لئے ہی نہیں بلکہ یہ پورے خطے اور دنیا کے ماحول کے لئے خاصا اہم ہی۔ اس گلیشیر کو پگھلنے سے روکنے کے لئے اس علاقے سے فوجی انخلاء انتہائی ضروری ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ بھارت اس علاقے پر سے اپنا غاصبانہ قبضہ چھوڑ کر اسے غیر فوجی علاقہ قرار دی۔ پاکستان کی طرف سے تمام تر کوششوں کے باوجود سیاچن کے مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں بھارت کے غیر لچکدار رویئے کے باعث تعطل کا شکار ہیں۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان سیاچن گلیشیر، سرکریک بائونڈری اور پانی جیسے معاملات حل کر لئے جائیں تو یہ مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی ممد و معاون ثابت ہوگا
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved