اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-06-2011

ایک زرداری سب پر بھاری
تحریر: نجیم شاہ
موجودہ صدر پاکستان آصف علی زرداری ایک سندھی سیاست دان اور حاکم علی زرداری مرحوم کے بیٹے ہیں۔ حاکم علی زرداری کا شمار ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں ہوتا تھا جو بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھی۔ 1980ء کے وسط تک آصف علی زرداری کا سیاست سے دور دور تک بھی وابستہ نہیں تھا بس ایک سراغ یہ ملتا ہے کہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں اُنہوں نے نواب شاہ میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے مگر پھر واپس لے لئے گئی۔ 1988ء میں جب مرحومہ بے نظیر بھٹو برسراقتدارِ آئیں تو آصف زرداری بھی وزیراعظم ہائوس میں منتقل ہو گئے اور ان کی سیاسی زندگی باضابطہ طور پر شروع ہو گئی۔ 1990ء میں بے نظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات میں وہ رکن قومی اسمبلی بنی۔ 1993ء میں وہ نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کی کابینہ میں وزیر بنے پھر بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں رکن قومی اسمبلی اور وزیر ماحولیات و سرمایہ کاری رہی۔ 1997ء سے 1999ء تک سینٹ کے رکن بھی رہی۔
1999ء سے 2004ء تک کے چودہ برس آصف زرداری کی زندگی کے سب سے ہنگامہ خیز سال ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان پر کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئی۔ غلام اسحاق خان سے لے کر نواز شریف اور پرویز مشرف تک کی حکومتوں نے اندرون و بیرون ملک ان الزامات، ریفرنسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کی۔ آصف علی زرداری تقریباً مل ملا کر گیارہ برس جیل میں رہی۔ جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکہ، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا اس کے بعد سے ان کے اور آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ اس سلسلے میں دو ہزار سات میں متعارف کرائے گئے متنازعہ قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) نے اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔شروع میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری صرف پارٹی قیادت پر توجہ مرکوز رکھیں گے لیکن پھر انہوں نے صدر بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اگست008ء میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کیلئے تجویز کیا جس کے بعد پیپلز پارٹی نے باضابطہ طور پر آپ کو صدارتی انتخابات کیلئے نامزد کر دیا۔
آصف علی زرداری ابھی صدارت کے عہدے پر فائز بھی نہیں ہوئے تھے کہ پی پی مخالف پارٹیوں کے اندر سے بار بار یہ آواز اُٹھتی رہی کہ زرداری صاحب کا دماغی توازن درست نہیں اور ایک نیم پاگل شخص کو عہدہ صدارت پر بٹھانا اس عہدے کی توہین ہے مگر دنیا نے دیکھا کہ زرداری صاحب نے صدارت کا منصب سنبھالتے ہی سیاسی مخالفین کو ایسے انجکشن لگائے کہ کئی سیاست دان ابھی تک ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں جبکہ کئی اتحادی بن کر خود کو ’’پاگل‘‘ ثابت کر چکے ہیں۔ اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ صدر زرداری ایک مقبول لیڈر ہیں تو میرا جواب نفی میں ہوگا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایک کامیاب سیاست دان ہیں تو میں بھی اُن کی سیاست کو سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی ہونے کا مشورہ دوں گا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی کا مشورہ تو دے دیا مگر یہ کون بتائے گا کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل گریجویٹ اسمبلی کو پہلے ماسٹر، پھر ایم فل کرنا ہوگا اور جب تک پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل ہوگی اُس وقت تک زرداری صاحب دو تین بار صدارت کا مزہ چکھ چکے ہوں گی۔ ویسے بھی سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر مرحوم کہا کرتے تھے کہ آصف علی زرداری جتنے سال جیل میں رہے اتنے سال اس ملک کے صدر بھی رہیں گے اور یہ عرصہ دو ہزار اٹھارہ سے بھی آگے جاتا ہی۔
مخدوم جاوید ہاشمی بلامعاوضہ ایسے مشورے تو دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ہماری پارلیمنٹ میں کتنے ارکان ایسے ہیں جو پی ایچ ڈی کرنے کے لئے اہل ہیں کیونکہ ہماری اسمبلیوں میں بہت سے ایسے خود ساختہ گریجویٹ موجود ہیں جو اپنی جعلی ڈگریوں کی بدولت پارلیمنٹ کے اجلاس اور ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے اس قوم کے دما غ کی وہ دہی بنا رہے ہیں جو میٹھی یا کٹھی تو دور کی بات بدبودار اور بدذائقہ ہی۔ ہماری اسمبلیوں کے ’’مہذب ‘‘ہونے کی مثالیں تو زبان زدِعام ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو پارلیمنٹ کے کسی اجلاس میں شریک ہو کر دیکھ لیںجہاں ایک طرف ’’سوہنی کڑیاں‘‘ وزیراعظم کو چوڑیوں کے تحفے دیتی نظر آئیں گی جبکہ دوسری طرف روٹیاں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ ہمارے ارکانِ اسمبلی کی حتی الامکان کوشش یہی ہے کہ عوام کو روٹی، کپڑا ،مکان ملے یا نہ ملے مگر وزیراعظم صاحب کی خاطر مدارت ضرور ہونی چاہئی۔ اگر ان سے بھی زیادہ تہذیب یافتہ ارکان اسمبلی سے ملنے کاشوق ہے تو پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دیکھ لیں جہاںنہ صرف نئے نئے نعرے ایجاد ہوتے ہیں بلکہ لوٹوں تک کو فٹ بال بنا کر کھیلا جاتا ہی۔ بیشتر ارکان کے پاس اُنگلی کے چھلا کے سائز سے لیکر نارمل سائز تک کے ایسے لوٹے موجود ہیں جو آپ نے کبھی مارکیٹ میں بھی نہیں دیکھے ہوں گی۔
صدر زرداری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک لیڈر کے شوہر تو رہے مگر لیڈر نہیں کیونکہ کامیاب لیڈر کا دماغ ہمیشہ ایک ہی سوچ میں مصروف رہتا ہے کہ ملک ترقی کیسے کریگا، غربت کیسے ختم ہوگی، بیرونی دنیا میں نام کیسے بلند ہوگا مگر ہمارے صدر صاحب کے پاس سوائے سیاسی جوڑ توڑ کے کچھ بھی نہیں ہے البتہ جہاں تک کامیاب سیاست دان ہونے کا سوال ہے تو صدر زرداری کا جادو حکومت کی شروعات کے دنوں سے ہی بول رہا ہی۔ اُن کی قوتِ برداشت اور صبر و تحمل کی خصوصیت جو کہ ایک خالص سیاستدان کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہی، نے اس جادو میں نئی روح پھونکی ہی۔ اُن کی طبیعت میں خاموشی اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو کہ پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں میں نہیں ہی۔ وقت گزارنے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اور اگر کوئی ان کے خلاف بولے تو جواب میں پھر خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ اُنہوں نے اپنے تجربات اور بینظیر بھٹو کے ساتھ رشتے کی بدولت بہت کچھ سیکھا ہی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کے مالک ہیں اور اپنی اسیری کے دوران برداشت نے اُنہیں ایک ایسا فنکار بنا دیا جو ایک کامیاب سیاست دان کا خاصہ ہوا کرتی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو صدر زرداری کا دور ون مین شو، کرپشن، مہنگائی اور وعدہ خلافیوں سے بھی بھرا پڑا ہی۔
پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ایک عمدہ نعرہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ تخلیق کیا ہی۔ زرداری صاحب جس طرح کی سیاسی چالیں چل کر کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں وہ قابل رشک ہیں۔ اُنہوں نے جب بھی کوئی چال چلی یا پتہ پھینکا سب محو حیرت ہوئی۔ ایک طرف انکل الطاف اور انکل پیر پگاڑا کو آسودہ حال رکھنے کی تگ و دو کی تو ساتھ ہی قاتل لیگ کو بھی ’’قابل لیگ‘‘ بنا دیا۔ ایم کیو ایم کا تو کام ہی نخریلی بیگم کی طرح کا ہے کہ روز روز روٹھ جانا اور زیور کا نیٹ سیٹ لے کر مان جانا۔ پی پی اور ایم کیو ایم کی لڑائی میاں بیوی کی لڑائی کی طرح ہے مگر اس بار شوہر صاحب نے سوکن جو مسلم لیگ قاف کی ڈال دی تو پہلی بیوی کے نخرے بھی کم ہو گئے اور خاموشی سے گھر آ گئی کہ کہیں سوکن پورے گھر پر قبضہ نہ کر لی۔ صرف یہی نہیں بلکہ قاتل لیگ کو جیسے ہی لگے لگایا میاں صاحب بھی فوری صحت یاب ہو کر لندن سے براستہ ہوائی موٹروے لاہور پہنچ گئے کہ کہیں پنجاب حکومت کا بوریا بستر گول نہ ہو جائے لیکن شہباز حکومت کو فوری نہ چھیڑنا بھی صدر زرداری کی ایک کامیاب حکمت عملی تصور کیا جاتا ہی۔ سیانے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی کیخلاف بیان بازی بھی زرداری صاحب کے دل کی آواز تھی جو انہوں نے میاں نواز شریف کے منہ سے نکلوائی۔ اس بیان بازی کے بعد فوج کے دل میں میاں نواز شریف کیلئے جو تھوڑی بہت جگہ تھی وہ بھی ختم ہو جائے گی اور اس کا فائدہ بھی زرداری کو ہوگا کیونکہ اس طرح فوج اور حکومت قریب ہو جائیں گی۔ مخدوم جاوید ہاشمی اسی لیئے تو ان کی گنجلک سیاست کو سمجھنے کیلئے پی ایچ ڈی سے تشبیہہ دیتے ہیں۔
زرداری صاحب سے لاکھ اختلافات سہی مگر یہ ماننا پڑے گا کہ اُنہوں نے انتہائی سخت حالات میں پاکستانی سیاسی اکھاڑے میں اپنے مخالفین کو بڑے ’’پیار‘‘ سے بارہا چِت کیا ہی۔پاکستان کی سیاست چونکہ شطرنج کا کھیل ہے اور سیاسی عامل بابا آصف علی زرداری نے اپنے اقدامات سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اب بھی سب پر بھاری ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جناب آصف علی زرداری نے رشوت خوری کی شہرت کی وجہ سے مسٹر ٹین پرسنٹ کا اخباری خطاب پایا اور اُن پر اتنے بڑے مقدمات قائم کئے گئے مگر پاکستان کی عدالتیں آج تک ثابت نہیں کر سکیں کہ اُن پر مقدمات درست ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر زرداری اتنے بُرے بھی نہیں جتنا مافیا نے اُن کے خلاف پروپیگنڈہ کیا ہی۔ آصف علی زرداری اگرچہ پاکستانی قوم کے پسندیدہ شخصیت نہیں ہیں لیکن جس جواں مردی سے اُنہوں نے اپنے ذاتی دشمنوں کے ساتھ کام کیا وہ قابل تحسین ہی۔ اُنہوں نے اپنی چہیتی بیوی کے قاتلوں تک کو نظرانداز کر دیا حالانکہ وہ ان کو جانتے ہیں اور صدر جیسے طاقتور عہدے پر فائز ہیں۔ وہ خود چونکہ کئی بار جیل جا چکے ہیں مگر کسی کو ایسی جگہ بھیجنے کے حق میں نہیں ہیں اور ان کی اس نفسیات سے ہر سیاست دان فائدہ اُٹھا سکتا ہی۔ اُن کے سیاسی مخالفین جو بھی کہیں لیکن مستقبل میں مؤرخ جب پاکستان کی تاریخ کا حوالہ دے گا تو یہ جملہ ضرور لکھے گا کہ آصف علی زرداری پاکستان کے واحد صدر تھے جو سب سے زیادہ ووٹ لے کر صدر بنی۔
T ہمارے ملک میں صدر زرداری کی وعدہ خلافیوں، چکر بازیوں کی بھی ایک بحث چل نکلی ہی۔ مختلف موقعوں پر پی پی کے سربراہ آصف علی زرداری نے نواز شریف سے کھلے عام تحریری معاہدے کرنے کے چند روز بعد مُکر جانے کے طریقہ کو یہ کہہ کر صحیح طرز عمل گردانا کہ ’’معاہدے قرآن یا حدیث نہیں ہوتی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ صدر کی حلف برداری تقریب سے لے کر آج تک ہر عمل کو متنازعہ سمجھتی ہی۔ اُن کے نزدیک صدر زرداری ایک ایسے انسان ہیں جنہوں نے ساری قوم کے سامنے کئی وعدے کئے لیکن پھر مُکر گئی۔ نواز لیگ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اِن وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ہی پی پی اتحاد سے علیحدہ ہوئے لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ زرداری اور نواز اتحاد صرف مشرف کی صدارت چھوڑنے تک ہی تھا ورنہ پی پی اور ن لیگ دو الگ الگ پارٹیاں ہیں اور دونوں کے نظریات بھی آپس میں نہیں ملتی۔ معاہدوں سے مُکر جانے پر صرف زرداری صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں بلکہ وعدے یا معاہدے کرکے مُکر جانے کی بیماری ہمارے بیشتر سیاست دانوں میں عام پائی جاتی ہی۔خود میاں برادران نے بھی مشرف حکومت سے دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ وہ پہلے تو کچھ عرصہ خاموش رہے پھر حالات نے کروٹ بدلی تو اُنہوں نے ایسے کسی معاہدے سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا مگر پھر پوری قوم نے دیکھا کہ آخر کار میاں برادران نے دس سال کی بجائے پانچ سالہ جلاوطنی کا معاہدہ قبول کیا۔
میر ے نزدیک معاہدوں اور وعدوں سے جو چیز زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ کردار ہی۔ زرداری صاحب کو میرا صائب مشورہ یہی ہے کہ حضور ٹھنڈا کرکے کھایئے وگرنہ پھر سے ٹھنڈا فرش ہم تو چشم تصور میں دیکھ رہے ہیں۔ مانا کہ صدر صاحب کے نزدیک وعدے یا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے لیکن اُنہوں نے صدر بنتے وقت بھی ایک حلف اُٹھایا ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ میں ملک و قوم کا وفادار رہوں گا، اس کے مفادات کے منافی کوئی کام نہیں کروں گا، قومی راز افشاء نہیں کروں گا وغیرہ وغیرہ۔ اگر خدانخواستہ اُنہوں نے کسی موقع پر اس عہد کے حوالے سے بھی قرآن اور حدیث والی بات کہہ دی توپھر کیا بنے گا؟ زرداری صاحب کی اصل کارکردگی تو جناب کے جانے کے بعد سامنے آئے گی لیکن ظاہری طور پر سوائے ایک منجھا ہوا سیاست دان ہونے کے ایسا کچھ بھی نہیں جس کی تعریف کی جائی۔ معاشی، سلامتی اور سیاسی بحران ابھی تک اپنی جگہ برقرار ہیں۔ پاکستان میں جو ایک بڑا آئینہ تھا وہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی شام ٹوٹ چکا ہی۔ اب اس آئینے کے جتنے بھی ٹکڑے اکٹھے کر لیں صدر صاحب خود کو تنہا ہی محسوس کرینگی۔ زرداری صاحب آپ کے پاس دنیاوی دولت تو بہت ہی، اب ایمان کی دولت بھی اکٹھی کر لیں۔ خدا ایک توبہ اور ایک اچھے کام کے بدلے تمام گناہ معاف کر دیتا ہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تین سال مکمل کرکے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے اب ایسے اقدامات کریں جو عوام کے بہتر مفاد میں ہوں جن سے نہ صرف پارٹی کی قدر بڑھے گی بلکہ آئندہ انتخابات کے لئے عوام کا اعتماد بھی حاصل ہو گا اور پھر ایک طویل عرصے تک ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ گونجتا رہے گا۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved