اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-06-2011

امریکا میں سکھوں کیساتھ ناروا سلوک
تحریر: نجیم شاہ
مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ شیخ اُسامہ بن لادن کا تعلق سکھ مذہب سے ہے لیکن آپ یہ سن کر حیران و ششدر رہ جائیں گے کہ امریکا میں داڑھی اور پگڑی میں نہ صرف طالبان موجود ہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اُسامہ بن لادن کے سکھ بھائی بھی رہائش پذیر ہیں۔بریکنگ نیوز یہ ہے کہ امریکا کے شہر نیویارک میں ایک نسلی حملے کے دوران اُنسٹھ سالہ ایک سکھ اپنے تین دانتوں سے محروم ہو گیا۔اِن پر چلتی ٹرین میں ایک سیاہ فام امریکی باشندے نے یہ کہتے ہوئے حملہ کر دیا کہ وہ اُسامہ بن لادن کا بھائی ہے۔ تیس سال پہلے امریکا آنے والے جیون سنگھ میٹرو پولیٹن ٹرانسپوٹیشن اتھارٹی میں ملازمت کرتے ہیں اور یو ایس میموریل ڈے پر اِن پر یہ حملہ کیا گیا۔ جیون سنگھ نے بتایا کہ وہ رچمنڈ ہلز سے اپنے دفتر بروکلین جا رہے تھے کہ ایک کوچ میں جو تقریباً آدھی سے زیادہ خالی تھی، ایک سیٹ پر بیٹھے تھے کہ ایک پچیس سالہ نوجوان اُن کے پاس آیا اور اُن سے سیٹ خالی کرنے کا کہا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ تم اُسامہ بن لادن کے بھائی ہو ۔ جب اُسے بتایا گیا کہ ان کا اُسامہ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں اس کے باوجود اُس نے جیون سنگھ کا گریبان پکڑا اور انہیں دوسری سیٹ پر دھکیل دیا اور کہا کہ طالبان وہاں جا کر بیٹھ ۔ ٹرین جیسے ہی اگلے اسٹیشن کنگسٹن اوینیو میں داخل ہوئی اس سیاہ فام لڑکے نے یہ کہتے ہوئے کہ اُسامہ یہ تیرے لئے ہیں ان کے منہ پر تابڑ توڑ دو زوردار گھونسے جڑ دیئے۔ جیون سنگھ کے منہ سے خون بہنے لگا اور تین دانت بھی ٹوٹ گئے۔ اس طرح اُسامہ بن لادن کا ایک اور سکھ بھائی امریکی غضب کا نشانہ بن گیا۔
سکھ ازم بھارت اور پاکستان کے پنجابی علاقوں کا ایک اہم مذہب ہے جو اسلام اور ہندو دھرم سے الگ ہے۔ پندرہویں صدی میں شمالی ہندوستان میں نانک نامی شخص نے اس مذہب کی بنیاد رکھی جو اس مذہب کے بانی اور پہلے گروہ بھی کہلاتے ہیں۔مذہبی وجوہات کے سبب سکھ فرقے کے لوگ اپنے بال نہیں کٹواتے اور سر پر پگڑی پہنتے ہیں جسے باندھے میں کوئی دس سے پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ سکھ مذہب کے مطابق مردوں کو لوگوں کے سامنے اپنے بال باندھ کر اور سر ڈھانپ کر رکھنا ہوتا ہے۔ پگڑی عزت نفس، آبرو اور شرافت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور اسے سرِعام چھونے کی اجازت نہیں ہے۔ پگڑی کو سکھ مذہب میں ہاتھ، منہ یا سر کے بال دھونے یا انتہائی نجی حالات میں ہی اُتارا جاتا ہے۔سکھ بہادر اور جی دار ہوتے ہیں اور اپنی پگڑی کی بے حرمتی کو توہین سمجھتے ہیں ۔ اس مذہب کے ماننے والوں میں جہاں ان کی پگڑی اور داڑھی کو بے حد اہمیت حاصل ہے وہیں تلوار کی طرح کی کرپان نیام میں رکھنا بھی ان کی مذہبی روایات و اقدار کا حصہ ہے۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا میں پگڑی کو دہشت گردی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس ملک کے باشندے جو خود کو انتہائی مہذب سمجھتے ہیں ابھی تک دوسرے مذاہب کے بارے میں کم علمی کا شکار ہیں۔
امریکیوں کو مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان کچھ فرق ہی معلوم نہیں ہوتا۔ نائن الیون کے واقعات کے بعد سکھوں کو عرب یا مسلمان سمجھ کر کچھ امریکیوں نے نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ان حملوں میں کئی لوگ مارے بھی گئے اور اس طرح کے حملے اب بھی جاری ہیں۔ سکھ مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں اس طرح کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے امریکی حکومت کے شعبہ انصاف نے ماضی میں ایک پوسٹر بھی جاری کیا جس کے ذریعے سکھوں کے بارے میں عام لوگوں کو مطلع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس پوسٹر میں پگڑی باندھے ایک جوان سکھ اور دوپٹہ اوڑھے ہوئے ایک دوشیزہ کے علاوہ ایک لڑکے کی تصویر بھی ہے جو پٹکہ پہنے ہوئے ہے ۔ سکھوں نے اپنے طور پر بھی کئی طرح سے لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مسلمان نہیں ہیں لیکن پھر بھی امریکی غضب کا نشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں۔ داڑھی اور پگڑی والے افراد کو القاعدہ سے منسلک کیوں سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ اُسامہ بن لادن پگڑی پہنتے تھے اور عرب باشندوں میں بھی یہ رواج عام ہے۔ محض اس لئے کہ شیخ اُسامہ بن لادن پگڑی پہنتا تھا اس کی سزا سکھوں کو دی جا رہی ہے۔ سکھ برادری کے لوگوں پر نفرت کی بنیاد پر حملے کوئی نئی بات نہیں اور ایسے حملوں کا سب سے بڑا شکار بھی سکھ ہی ہیں۔ امریکی کسی کو بھی پگڑی یا داڑھی میں دیکھتے ہیں تو مسلمان سمجھ لیتے ہیں اور پھر اُن کا تعلق القاعدہ یا طالبان سے جوڑ کر حملے کرتے ہیں ۔ سکھ مذہب میں چونکہ داڑھی اور پگڑی کو انتہائی اہمیت حاصل ہے اور دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ سکھوں پر حملوں کی بنیادی وجہ بھی ان کی یہی پگڑی اور داڑھی بنی ہوئی ہے۔
امریکا میں آباد سکھ برادری تقریباً نصف ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں کچھ تجارت اور اچھے روزگار پر ہیں تو کچھ چھوٹے موٹے کام کرتے ہیں لیکن نائن الیون واقعات کے بعد سے انہیں شدید نفرت اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ 2006ءکے دوران امریکا میں پولیس نے اقبال سنگھ نامی ایک سکھ کو طالبان سمجھ چاقو سے وار کرکے زخمی کر دیا تھا جبکہ 2009ءمیں بھی ایک سکھ نوجوان کو قاتلانہ حملے کے دوران خنجر گھونپا گیا جس کی وجہ سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔ اسی طرح عراق جنگ سے واپس آنے والے ایک فوجی سپاہی کو کلب میں سکھ کی پگڑی اُتار پھینکنے پر 280پونڈ جرمانے کی سزا دی گئی۔ فوجی کا کہنا تھا کہ وہ پگڑی والے لوگوں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔ امریکا میں ایسے بہت سے کیس رپورٹ کئے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی اور پگڑی کی وجہ سے سکھوں کو اُسامہ اور طالبان کا ساتھی سمجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ امریکی ہوائی اڈے پر سکیورٹی کی بناءپر اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے ایک سکھ اہلکار کی مبینہ تلاشی کے بعد سکھوں میں اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ سردار جی چونکہ سچے اور کھرے سکھ تھے اس لئے اپنی پگڑی کی بے حرمتی نہیں کرنے دی اور آدھے گھنٹہ کی کشاکش کے بعد آخر اُسے چیکنگ کے بغیر اندر جانے دیا گیا۔ امریکا میں کوڑے کے ڈبوں پر عربوں اور مسلمانوں کے بارے میں نازیبا کلمات لکھے پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سکھ فرقے کے لوگ خوفزدہ ہیں۔ اس کے علاوہ سرکاری نوکریوں میں بھی پگڑی کے سبب سکھوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے۔
نائن الیون کے حادثے کے بعد سکھوں کو یورپ میں بھی مشکلات کا سامنا پڑا۔ امریکا اور یورپی ممالک ایشیائی ملکوں کے لوگوں کی عام زندگی کے بارے میں تفصیل سے نہ جان سکے۔ ان کو مسلمانوں اور سکھوں کی داڑھی میں کوئی فرق نہیں لگتا ہے۔ کتنی بار اس طرح کے واقعات مغربی ملکوں کے ایئرپورٹس پر ہو چکے ہیں لیکن ان کی پالیسی وہی ہے کہ اُن کو ہر داڑھی اور پگڑی والا انتہا پسند نظر آتا ہے۔ ماضی میں جب اطالوی ہوائی اڈے پر عالمی شہرت یافتہ سکھ کوچ امریندر سنگھ کو تلاشی کے دوران پگڑی اُتارنے کو کہا گیا تو اس پر بھی سکھ فرقے کی طرف سے شدید احتجاج ہوا۔ سکھ بہادر اور جی دار ہوتے ہیں ایک مرتبہ اڑ جائیں تو پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں سکھوں کے دباﺅ پر حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اُن کے ہوائی اڈوں پر پگڑیوں کی تلاشی نہیں لی جائے گی حالانکہ یورپی قانون کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر میٹل ڈی ٹیکٹر سے آواز آئے تو سکھوں کی پگڑیاں اتروا کر تلاشی لی جائے مگر برطانیہ میں مقیم سکھوں نے اس پابندی کو ماننے سے انکار کر دیا تھاجس پر سکیورٹی حکام کو سر جھکانا پڑا۔ اسی طرح برطانیہ میں ایک ایمپلائمنٹ ٹربیونل نے گریٹر مانچسٹر انتظامیہ کو ایک سکھ پولیس مین سے پگڑی اُتارنے کا مطالبہ کرنے پر اسے دس ہزار پونڈ ہرجانہ ادا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ سکھوں میں اس قدر اتحاد ہے کہ حال ہی میں برطانوی سکھ پولیس اہلکاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے لئے بلٹ پروف پگڑیاں تیار کی جائیں۔ برطانوی پولیس میں موجود سکھ اہلکار ہیلمنٹ پہننے کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ پگڑی پہننا ان کا مذہبی حکم ہے۔ اس وجہ سے سکھ پولیس اہلکاروں نے اپنی حفاظت میں ہیلمٹ نہیں پہنے ہوتے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے بلٹ پروف پگڑیوں کا مطالبہ کر دیا۔
سکھ برادری کی فوجی ثقافت کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ سکھوں نے برطانیہ، کینیڈا اور بھارت میں فوج میں خدمات انجام دی ہیں۔ امریکی فوج میں بھی سکھوں کی ایک قلیل تعداد نے کئی سالوں تک بغیر کسی مسئلے کے کام کیا تاہم 1980کے عشرے میں ویتنام کی جنگ میں لڑنے والی امریکی فوج کے اندر ہم آہنگی کا فقدان دیکھنے میں آیا اور نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کے لئے مذہبی شناخت کے استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی جس کا سب سے زیادہ نشانہ بھی سکھ ہی بنے ۔ یہ پابندی سکھوں کے لئے کھلا چیلنج تھی لیکن سکھوں کے مطالبہ پر امریکا کو ہوشیاری آئی اوربالآخر سکھ فوجیوں کو پگڑی اور داڑھی کے ساتھ فوج میں بھرتی کی اجازت مل گئی۔ امریکی فوج میں سکھوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اس مذہب کے پیروکاروں نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اپنے مذہبی معاملات میں جھکنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بھارت میں جہاں ہندوﺅں کی بڑی اکثریت ہے وہیں سکھ بھی ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں۔سکھوں کو چاہئے کہ اپنی حکومت پر دباﺅ ڈالیں اور امریکیوں کے کپڑے اُتار کر جامہ تلاشی کا اعلان کروا دیں۔ اس طر ح نہ کوئی فیلٹ بھارت میں داخل ہو سکے گا اور نہ کوئی پگڑی امریکا میں اُتاری جا سکے گی۔ امریکا میں عام زندگی گزرنے کے بہت سے معنی ہو سکتے ہیں۔ اس میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنا بھی شامل ہے۔ مسلمانوں کی طرح امریکہ میں سکھوں کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے۔ اگر دلوں میں گنجائش اور دوسرے مذہب کا احترام ہو تو ہر شخص اپنا ہی لگتا ہے، یہی چیز انسان کو انسانیت سکھاتی ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved