اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

شنگھائی تعاون تنظیم کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت
تحریر: نجیم شاہ
شنگھائی تعاون تنظیم ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا کلیدی مقصد تجارتی و معاشی اشتراک عمل، ثقافتی اور سائنسی روابط کو تقویت پہنچانا اور قدرتی آفات کے اثرات کو دور کئے جانے میں رکن ممالک کی سرگرمیوں میں رابطہ پیدا کرنا ہے جبکہ حالیہ برسوں میں انسداد دہشت گردی، انتہا پسندی اور دیگر منظم جرائم جیسے مسائل بھی اس تنظیم کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس گروپ میں چونکہ پانچ ممالک چین، روس، قزاقستان، کرغستان اور تاجکستان شامل تھے اس لئے اس کا نام بھی ’’شنگھائی فائیو’’ رکھا گیا۔ ان ملکوں نے اپنے سرحدی علاقوں میں فوج کم کرنے اور باہمی بھروسے کو فروغ دینے کیلئے 26 اپریل 1996ء کو یہ گروپ قائم کیا اور 24 اپریل 1997ء کو ان ممالک نے ماسکو میں اپنی سرحدوں پر فوج کی کمی کا معاہدہ کرکے گروپ کو فعال بنانے کی طرف پہلا قدم اُٹھایا۔ 2001ء میں اس گروپ میں ازبکستان کی شمولیت سے یہ گروپ ’’شنگھائی 6‘‘ بن گیا اور پھر 15جون 2001ء کو رکن ممالک نے اس گروپ کا دائرہ کار بڑھانے کی غرض سے نام تبدیل کرکے ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ رکھ دیا۔ اس وقت اس تنظیم میں چھ مستقل رکن ممالک سمیت چار مبصر ممالک پاکستان، بھارت، ایران اور منگولیا شامل ہیں جبکہ تنظیم کے مکالمت کی سطح کے پارٹنر ملک سری لنکا اور بیلا روس بھی اس کا حصہ ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس 2001ء سے تواتر کے ساتھ سالانہ بنیادوں پر جاری ہے اور ان اجلاسوں کے مہمانوں کی فہرست میں افغانستان، آسیان تنظیم اور وسطی ایشیائی ملکوں کی تنظیمیں شامل ہیں جبکہ یہ تنظیم چند مزید ممالک کے ساتھ بھی مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے چھ مستقل رُکن ممالک کی کل آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب افراد پر مشتمل ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی بنتی ہے جبکہ تنظیم سے منسلک تمام ممالک کی کل آبادی دنیا کی آدھی آبادی کے برابر ہی۔ اس لئے اس اتحاد کا مستقبل روشن ہے اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی نسبت اس کے وقار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہی۔ گو کہ اس تنظیم کے تحت ممبر ممالک کے مابین چھوٹے پیمانے پر فوجی مشقیں بھی ہوتی رہتی ہیں تاہم مغربی مبصرین اسے نیٹو طرز کا ایک سکیورٹی گروپ تصور کرتے ہیں جو مغرب کو للکار سکتا ہی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم ایک مشکل دور میں تشکیل دی گئی تھی اور اس کا قیام جدید چیلنجوں کے جواب میں عمل میں آیا۔ ایسے چیلنجوں کی تعداد کم نہیں جن میں بین الاقوامی دہشت گردی، بین الاقوامی جرائم، منشیات کی اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ، ہتھیاروں کی ناجائز فروخت، مالیاتی اور ماحولیاتی خطرات قابل ذکر ہیں اور خطرہ تھا کہ بین الاقوامی تعلقات اور معاشی ترقی کے بارے میں مغرب کا رویہ تمام ممالک پر ٹھونسا جائے گا۔ یہ اتحاد نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی قوتوں کا بھی توازن برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور مستقبل قریب میں یہ تنظیم ایک اہم سیاسی اور معاشی طاقت بن سکتی ہے کیونکہ گزشتہ دس سالوں میں اس تنظیم کا وقار بہت بڑھ چکا ہی۔ اس کی اہمیت علاقائی سطح کے علاوہ عالمی سطح پر بھی بہت زیادہ ہے اور اس کے بغیر کئی بین الاقوامی مسائل کا حل ناممکن ہی۔ پاکستان دو ہزار پانچ میں مبصر کی حیثیت سے شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہوا اور دو ہزار چھ میں اس تنظیم کا بااختیار رکن بننے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے جبکہ اسی طرح کی خواہش ہندوستان ، ایران اور منگولیا بھی کر چکے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کو بیک وقت شنگھائی تنظیم کے بااختیار اراکین کا درجہ دیئے جانے کے بعد تنظیم کا ڈھانچہ بڑی حد تک تبدیل ہو جائے گا اور برصغیر کو درپیش مسائل اس کے دائرہ عمل میں آ جائیں گے اور پھر ان نئے مسائل کے حل کیلئے تنظیم کو اقدامات بھی کرنے ہوں گی۔ اسی وجہ سے ان دونوں ممالک کا معاملہ فی الحال لٹک رہا ہے لیکن قوی اُمید ہے کہ مبصر ممالک میں سے پاکستان اور ہندوستان جلد شنگھائی تنظیم کے مستقل رکن بن جائیں گے جبکہ ایران پر چونکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیاں عائد ہیں اس لئے ایران کو مکمل شمولیت فراہم کئے جانا شنگھائی تنظیم کے منشور کے خلاف ہی۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی اہمیت اس لئے بھی مسلمہ ہے کیونکہ اس کے چارٹر میں شامل تمام مقاصد کو آگے بڑھانے اور ان میں کلیدی کردار ادا کرنے کیلئے پاکستان جیو اسٹریٹیجک اور اقتصادی اعتبار سے انتہائی اہم محل وقوع کا حامل ہے اور تنظیم کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہی۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو جنوبی ایشیاء اور بحیرہ عرب سے ملانے کے لئے قدرتی راستہ فراہم کرتا ہے کیونکہ پاکستان وسطی ایشیاء، مغربی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے دوراہے پر واقع ہی۔ پاکستان باہمی فائدے کیلئے بین الاعلاقائی تجارت اور توانائی کے وسائل کی ترسیل کیلئے بھی خشکی کا راستہ فراہم کرتا ہے اور تنظیم میں مبصر کا کردار انتہائی ذمہ داری سے ادا کر رہا ہی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی خواہش ہے کہ اُسے تنظیم میں مکمل رکنیت دی جائے تاکہ وہ اس فورم سے خطے کی ترقی میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کر سکی۔ گزشتہ سال اس تنظیم نے اپنے اعلامیئے کے ذریعے جو گائیڈ لائن جاری کی تھی اس میں پاکستان اور ہندوستان کے بااختیار رکن بننے کی راہ ہموار ہو گئی تھی جبکہ رواں سال مئی میں پاکستان اور روس کے سربراہوں کے درمیان مذاکرات کے دوران منظور کردہ مشترکہ اعلامیئے میں روس نے بھی پاکستان کے اس ارادے کی حمایت کی ہے کہ اسے شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت دی جائی۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پاکستان اور روس کے تعلقات سردمہری کا شکار رہے لیکن یہ تعلقات اب آہستہ آہستہ بہتری کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔ روس کی طرف سے پاکستان کیلئے مستقل رکنیت کی حمایت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے حالانکہ کئی مبصرین اور تجزیہ کارایک عرصے سے اصرار کرتے چلے آ رہے تھے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں مستقل رکنیت کیلئے روس ہندوستان کی جبکہ چین پاکستان کی حمایت کریگا لیکن یہ مؤقف غلط ثابت ہوا اور روس نے پاکستان اور ہندوستان دونوں کو برابری کی اہمیت دے کر مستقل رکنیت پر آمادگی ظاہر کی ہی۔ روس کی جانب سے پاکستان کی حمایت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روس ایشیاء میں اپنی پوزیشن دوبارہ مستحکم کرنا چاہتا ہے اور علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے دیگر ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہتا ہی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے انتہائی متحرک ممالک چین اور روس بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی شمولیت سیاسی اور انسانی اعتبار سے بہت اہم ہے لیکن پاکستان اور ہندوستان کے مابین کشیدہ تعلقات اس راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کو مستقل رُکنیت دیئے جانے کی صورت میں دیگر رُکن ممالک کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن و سلامتی، دہشت گردی، مسئلہ کشمیر، سرکریک اور سیاچن گلیشیر سمیت دیگر مسائل حل کرانے کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا پڑ ے گا اور یہ ایسے مسئلے ہیں جن کی وجہ سے تنظیم میں پھوٹ بھی پڑ سکتی ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں روس ہندوستان جبکہ چین پاکستان کی حمایت کرتا رہا ہی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رُکنیت کے لئے پاکستان اور ہندوستان کیلئے راہ ہموار ہو رہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی برابر حیثیت مانی گئی۔ امریکی صدر بارک اوبامہ ہندوستان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رُکن بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں، وہاں بھی پاکستان کو بھارت کے مقابل مقام ملنا چاہئے کیونکہ مسلم اُمہ کی اقوام متحدہ میں نمائندگی ایٹمی پاکستان ہی کر سکتا ہی۔ اگر بھارت کو سکیورٹی کونسل میں نشست ملتی ہے تو پاکستان کو بھی یہ نمائندگی ملنی چاہئے کیونکہ امریکا کی دہشت گردی کی جنگ کو پاکستان نے خود گلے کا ہار بنا رکھا ہے جس کے باعث کئی فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ فوج کا اتنا جانی نقصان تو دشمن کے ساتھ لڑی جانے والی تین جنگوں، کرگل اور سیاچن کی مہم جوئیوں میں بھی نہیں ہوا۔ آپریشن، خود کش دھماکوں اور ڈرون حملوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد فوج کے شہداء سے کہیں زیادہ ہے جبکہ پاکستان دنیا میں قیام امن کے لئے اقوام متحدہ کی امن فورس میں بھی اپنا کلیدی کردار نبھا رہا ہی۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام کے بعد علاقائی سلامتی اور ترقی کیلئے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہی۔ موجودہ دور کے مسائل نوآبادیت کی باقیات، جنگوں، بالادستی و توسیع پسندی کے رحجانات کی وجہ سے ہیں۔ اچھے ہمسائیگی تعلقات کی ایس سی او شنگھائی سپرٹ کی پیروی سے بہتر مستقل کی تشکیل عمل میں آ سکتی ہی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اس تنظیم کا دائرہ کار بڑھایا جائے بلکہ تعلیم، صحت عامہ، ماحولیاتی، غذائی تحفظ، تربیت اور امن مشنز کے شعبہ جات میں رُکن ممالک کے مابین اشتراک کار کو وسعت دینے کی بھی ضرورت ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved