اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Email:-

najeemshah@yahoo.com

Telephone:- 

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

ضرورت برائے انقلابی لیڈر
تحریر: نجیم شاہ
لیڈر، قائد یا رہنماءکسی قوم کی رہبری یا رہنمائی کرنے والا وہ عظیم انسان ہوتا ہے جو ایک عزم اور مقصد کیساتھ کچھ کر دکھانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اُس کے ارادے چٹان کی طرح مضبوط ہوتے ہیں اور سوچ قوم سے شروع ہو کر قوم پر ہی ختم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب لیڈر میں دلیری، ضبط، انصاف پسندی، استقلال، منصوبہ، محنت پسندی، خوشگوار شخصیت، ہمدردی جیسی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اور ایک سچا، امین، دیانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا وفادار بھی ہوتا ہے۔وہ ہر آدمی کا درد اپنے سینہ میں لئے ہوئے ہوتا ہے اور حقیقی معنوں میں عام انسان کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے جبکہ رشوت خوری، سفارش، کنبہ پروری، جھوٹ، فریب جیسی لعنتوں سے پاک ہوتا ہے۔ ایک عظیم لیڈر کے بولنے میں بڑی طاقت، الفاظ میں تاثیر اور جادو ہوتا ہے جبکہ اس کا مزاج اسے ایسے کام کی طرف لے جاتا ہے جو ایک عام انسان کیلئے بے حد مفید ہوتا ہے۔ شورش کاشمیری مرحوم پندرہ مارچ انیس سو پینسٹھ کے رسالہ چٹان میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں لیڈر بنتے ہیں دولت کی فراوانی سے، سرکار کی خوشنودی سے، وزارت کے راستہ سے، کرسی کے فضل سے، غنڈوں کی رفاقت سے، اخباروں کی پبلسٹی سے، ورکنگ جرنلسٹوں کے قلم سے، حکام کی جاسوسی سے، اکابر کی ذریت سے، بادہ خوانوں کی چھوکٹ سے، اسلام کی مجاوری سے لیکن دوسرے ملکوں میں لیڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے، دولت کے ایثار سے، جان کے زیاں سے، خدمت کی راہ سے، علم کے کمال سے، نگاہ کی بصیرت سے، عوام کی رفاقت سے، عقائد کی پختگی سے، اصول کی پیروی سے، نصب العین کی محبت سے اور قید خانوں کی ضرب سے ۔
جس قوم کو ایک اچھی لیڈر شپ مل جائے وہ قوم نہ صرف اپنا مستقبل محفوظ بنا سکتی ہے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کے لئے ایک مثال بھی بن جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوم کی تقدیر لیڈر ہی بناتے اور بگاڑتے بھی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو میں لیڈروں والی جھلک نظر آئی تھی لیکن چونکہ اُن میں بھی خوبیوں کے ساتھ بہت سی خامیاں موجود تھیں جن کی سزا آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔بھٹو ایک بہترین دماغ تھا جس نے شاہ فیصل اور قذافی کے ساتھ مل کر مسلم دشمن قوتوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں اور پھر شاہ فیصل اور بھٹو کے قتل کے بعد قذافی کو دیوار سے لگا کر اسلامی دنیا سے اس طرح کے لیڈروں کا صفایا کر دیا گیا لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو بھٹو نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگا کر بنگلہ دیش کی صورت میں ایک نئے ملک کا وجود ممکن بنایا جس کا سارا کریڈٹ بھارت اُٹھا رہا ہے۔ بھٹو کے بعد عوام کو پرویز مشرف کی صورت میں اُمید کی ایک کرن نظر آئی تھی لیکن سیاست میں نابلد ہونے کی وجہ سے اُن کے چند اقدامات ایسے تھے جن کی وجہ سے ملک کو نقصان اُٹھانا پڑا۔ ہمارے سیاسی قائدین خود کو ایک عظیم لیڈر کے طور پر منوانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن چونکہ اُن میں سو فیصدی ایسی خوبیاں موجود نہیں ہوتیں جو ایک عظیم لیڈر میں ہوا کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کامیاب لیڈر قرار نہیں پاتے اور قوم ایک ایسے لیڈر کی راہ دیکھتی رہتی ہے جو انقلاب کے راستے پر چل پڑے اور ملک کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ ایسی خوبیاں صرف قائداعظم محمد علی جناحؒ میں موجود تھیں یہی وجہ ہے کہ آج ہر سرکاری دفتر اور چھوٹے بڑے نوٹوں پر اُن کی تصویر آویزاں ہے۔ اگر کسی نوٹ پر قائد کی تصویر نہ ہو تو وہ نوٹ جعلی قرار دیا جاتا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں میں جہاں بہت سی خامیاں موجود ہیں وہیں کئی بے مثال خوبیوں کے مالک بھی ہیں۔ اگر تمام سیاست دانوں کی خوبیاں کسی ایک شخص میں مجتمع ہو جائیں تو وہ ایک عظیم لیڈربن سکتا ہے۔ اگر کئی لوگ پرویز مشرف کو تاریخ ساز لیڈر سمجھتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے دلوں میں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن ایک لیڈر کے طور پر نقوش کر چکے ہیں۔ پرویز مشرف ایک کرشماتی شخصیت کے مالک اور عوام میں سچے، کھرے انسان کے طور پر مشہور ہیں۔ قول کے پکے ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ پرویز مشرف، آصف زرداری، نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمن کو اگربین الاقوامی مسائل پر گفتگو کرنا پڑ جائے تو سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف بازی لے جائیں گے کیونکہ وہ دوراندیش ہیں اور بین الاقوامی میڈیا کو بہتر طور پر سمجھا سکتے ہیں البتہ اُن میں بہت سی خامیاں بھی موجود ہیں جن میں اُنکی مغرب نوازی، کامیاب سیاست دان کی خوبیاں موجود نہ ہونا اور مذہب سے دوری اُن کے عظیم لیڈر بننے کے راستے میں رکاوٹ ہیں۔
آصف علی زرداری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک لیڈر کے شوہر تو رہے مگر لیڈر نہیں کیونکہ کامیاب لیڈر کا دماغ ہمیشہ ایک ہی سوچ میں مصروف رہتا ہے کہ ملک کیسے ترقی کریگا، غربت کیسے ختم ہوگی، دنیا میں نام کیسے بلند ہوگا البتہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے جب بھی کوئی سیاسی چال چلی یا پتہ پھینکا سب محو حیرت ہوئے یہی وجہ ہے کہ ان کی اس گنجلک سیاست کو پی ایچ ڈی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔اُن کی طبیعت میں خاموشی اور صبر جیسی چیز موجود ہے جو پاکستان کے بہت سے سیاست دانوں میں نہیں ہے لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ وہ کرپشن اور وعدہ خلافیوں کے الزامات کی زد میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے اُنہوں نے نہ صرف مسٹر ٹین پرسنٹ کا اخباری خطاب پایا بلکہ وعدے کرکے مُکر جانے کو یہ کہہ کر صحیح عمل گردانا کہ معاہدے قرآن یا حدیث نہیں ہوتے۔ آصف علی زرداری ایک منجھے ہوئے سیاست دان ضرور ہیں لیکن لیڈر نہیں بن سکے۔
بہت سے لوگ میاں محمد نواز شریف کو بھی ایک تاریخی لیڈر سمجھتے ہیں بلکہ کچھ کمزوریوں کے باوجود بھی ملک میں کسی لیڈر سے زیادہ چاہتے ہیں اور اُن کی شخصیت اور سیاست میں بلند مقام کے باعث اُن سے بڑی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کی چھ دہائیاں کراس کر چکے ہیں اس عمر میں ان کو پختہ ذہن کا سیاست دان ہونا چاہئے تھا مگر افسوس کہ ان کی طبیعت میں ٹھہراﺅ کے بجائے تلاطلم اور خلفشار موجود ہے۔ اُن کی گفتگو سادگی پر مبنی ہوتی ہے تاہم انہیں الفاظ کی تلاش میں کبھی کبھار مشکل پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ آصف علی زرداری کی طرح وہ بھی وعدے کرکے مُکر جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اُن کی سب سے بڑی خامی ہے لیکن ایسا مرحلہ بھی دیکھنے میں آیا کہ میاں صاحب نے قوم کو اندھیرے میں نہ رکھ کر عوام کے ساتھ کھلی بات کی۔ اُن میں کئی خوبیاںایسی پائی جاتی ہیں جو ملک کو اضطرابی کیفیت سے نکال سکتی ہیں۔ میاں نواز شریف اس وقت عوام کی نظر میں سب سے زیادہ محب وطن تصور کئے جاتے ہیںاور اُن کی زندگی میں مذہبی رنگ کا عنصر بھی نمایاں ہے۔
عمران خان کی سب سے بڑی خوبی ان کے غیرت مند بیانات تصور کئے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے باتوں کی حد تک تو قوم کو متاثر کیا ہے مگر پاکستانی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کرسی ملتی ہے تو سارے سیاسی وعدے ایک بے وفا محبوب کے عہد و پیماں کی طرح ہَوا ہو جاتے ہیں۔ اُنہوں نے ورلڈ کپ جیتا اور شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا تو دونوں میں سے کوئی بھی کام اکیلے نہیں کیا بلکہ یہ اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہے اس لیئے سارا کریڈٹ عمران خان کو نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان ابھی تک اپنی جماعت کا اکیلا ہی اُمیدوار نظر آتا ہے اور اب تک اپنے ارد گرد کوئی بڑی اہم شخصیات اکٹھی نہیں کر سکا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے علاوہ کوئی نمایاں شخصیت موجود نہیں ہے۔ سیاست میں عمران ابھی تک نابالغ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب تک تحریک انصاف ایک عوامی پارٹی نہیں بن سکی۔ اگر اُنہیں عوامی سیاست کرنی آ جائے تو ان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکے گا جبکہ ایک کامیاب لیڈر بننے کیلئے عمران خان کو اپنا جذباتی پن بھی ختم کرنا ہوگا۔
الطاف حسین کی سیاسی بصیرت کی داد دینی چاہئے کہ وہ لوگوں کے جذبات کو جس طور سمجھ رہے ہیں اور انہیں زبان دینے کی کوشش کر رہے ہیں وہ کمال ہے ۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کیخلاف ایم کیو ایم کا اعلانِ جنگ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مڈل کلاس طبقے کی نمائندہ جماعت ہے یہی وجہ ہے کہ الطاف حسین خود اسی طبقے کا لیڈر قرار دیتے ہیں جبکہ تصویر کا دوسرا رُخ دیکھیں تو مڈل طبقے کا لیڈر ہونے کے دعوے دار الطاف حسین خود لندن کے مہنگے ترین علاقے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے بھرپور کوشش تو کر رہی ہے لیکن ابھی تک لسانی جماعت کا لیبل ختم نہیں کرا سکی۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے عوام کو ایک اعتراض یہ رہا ہے کہ اس کے جلسے جلوسوں میں کبھی پاکستان، قائداعظم ، قومی پرچم نظر نہیں آتا البتہ الطاف حسین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جو بات بھی کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں لیکن لیڈر ہونے کیلئے عوام کے ساتھ سڑکوں پر آنا پڑتا ہے جبکہ الطاف حسین ابھی تک ٹیلیفونک خطاب تک محدود ہیں۔
اسلام پسند طبقہ مولانا فضل الرحمن کو قومی لیڈر اور اُمت مسلمہ کا رہبر سمجھتا ہے۔ مولانا کی سب سے بڑی خوبی بھی اُن کا عظیم مذہبی اسکالر ہونا ہے اور یہ خوبی اُنہیں دوسرے بہت سے سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت کا شمار پاکستان کی جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اُن کی سیاسی قلابازیوں کی بدولت یہ جماعت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا مو ¿قف ”اصولی“ ہوتا ہے، جسے یہ بروقت ”وصولی“ کی شکل میں پاتے ہیں۔ مولانا جس حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اپنے انوکھے انداز میں اُس کا دفاع بھی کرتے رہتے ہیں۔ حکمران چاہے کوئی بھی ہو ان کی سرتوڑ کوشش ہوتی ہے کہ ان کو کسی طرح گزند نہ پہنچے۔ مولانا سیاست کی زمینی حقیقتوں کے بہترین نباض ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کی سیاسی بصیرت، حکمت کاری، موسم شناسی زبان زدِ عام ہے۔ وہ اپنے کارناموں کی بدولت اکثر خبروں میں موجود رہنے کے ساتھ ساتھ تنقید کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
خود کو لیڈر کہلوانے کے دعویدار سیاست دانوں کی درج بالا تمام خوبیاں اور جماعت اسلامی طرز کی عوامی خدمت کا جذبہ اگر کسی ایک شخص میں موجود ہو تو وہ عظیم لیڈر بن سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں آ سکا جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں یہی وجہ ہے کہ ملک روز افزوں تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ موجودہ صورتحال میں نوجوانوں کی قیادت کے لئے کسی انقلابی لیڈر کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کی خامیاں چھوڑ کر جتنی بھی خوبیاں ہیں ان خوبیوں کا دعویدار اگر کوئی ہے تو میدان میں آ جائے اور پھر دیکھیں کہ پوری قوم اُس کے پیچھے قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔ اگرایسا ممکن نہیں تو پھر قوم ایک خونی انقلاب کیلئے اُٹھ کھڑی ہو۔ جب ملکوں میں حالات بدترین شکل اختیار کر لیتے ہیں اور قوم کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس کا حل صرف اور صرف انقلاب ہوتا ہے چاہے وہ غیر اسلامی انقلاب ہی کیوں نہ ہو۔ ماﺅزے تنگ جدید چین کا بانی اور عوام دوست انقلابی لیڈر تھا۔ اُنہوں نے چین میں وہ انقلاب برپا کیا جو آج تک دنیا کے کئی ممالک کے لاچار، غریب، مفلوک الحال اور کمزور لوگوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو رہا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ماﺅزے تنگ کا کہنا تھا کہ یہ ایک عظیم قوم ہے اور ایک دن پوری دنیا پر حکومت کرے گی کیونکہ غیبی قوت پر ان کا ایمان انتہائی پختہ ہے ۔ اگر اس قوم کو اچھی لیڈرشپ مل گئی تو بہت تیزی سے ترقی کرے گی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved