اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔05-09-2010

  کیا فوجی ڈکٹیٹرشپ لازم ہوچکی

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار


پاکستان میں ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں رنج و الم کا سبب بنی ہوئی ہیں تو دوسری طرف مارشلا کے شوشوں اور جرنیلوں کی امد کی صدائیں غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔ تبدیلی کی باتیں کرنے والوں کی اس بات کو مان لیا جائے کہ حالات خراب ہوچکے ہیں اور حکومت نے خراب حکمرانی کے ریکارڈ قائم کردئیے ہیں۔ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بدعنوانی اور کرپشن عروج پر ہے۔اس دعوے سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ایک بااثر شخص جب چاہتا ہے قانون کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی رٹ نہیں مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا ان مسائل کا فوری حل دوبارہ فوجی اقتدار سے ممکن ہے ؟کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہماری داخلی اور خار جی پالیسیاں فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے تابع ہیں اگر ایسا ہے تو پھر جرنیلوں کو دعوت کیوں دی جائے؟ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔متحدہ قومی موومنٹ اور

anp

ایک دوسرے پر حالات بگاڑنے کی زمہ داری عائد کرتی رہتی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جنوری سے اگست تک 300 کے لگ بھگ بدقسمت بے نقاب چہروں کی بربریت کا نشانہ بن گئے۔

anp

 اور

mqm

 دونوں نے یہ عاجلانہ مطالبہ کردیا ہے کہ کراچی کو فوج کے حوالے کیا جاوے ۔دونوں جماعتیں صوبوں اور وفاق میں حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔ اتحادی جما عتیں مارشل لا کی رٹ لگانے کی بجائے جرنیلی امریت کی حوصلہ شکنی کر یں ورنہ شاہی خلعت فاخرہ واپس کردی جائے مغربی میڈیا میں بھی جرنیلی ازم کی کہانیاں تواتر سے شائع ہورہی ہیں یوں یہ حقیقت سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ خاکی بوٹوں کے تلوے چاٹنے اور جرنیلی ادوار میں مٹھی چوریاں کھانے والے مجنوںجمہوریت کی ڈور کاٹنے کے لئے سرگرم ہوچکے ہیں۔اکانومسٹ نے اپنے تازہ شمارے میں لکھا ہے کہ فوج زیادہ دیر تک غیر جانبدار نہیں رہ سکتی۔اکانومسٹ کے کالم نگار بنیان نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ فوج نے زرداری کے خلاف جذبات کو ہوا دینے کی کوشش کی کیونکہ فوج زرداری کے دورہ برطانیہ سے مطمئن نہیں تھی ایک ایسے موقع پر جب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات صاد کئے۔ بنیان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے اسکا علم تو نہیں تاہم یہ کہنا مقصود ہے کہ حکمران قبیلہ،اتحادی پارٹیاں اور ملک بھر کی تمام سیاسی جماعتیں موجودہ سسٹم کو جاری رکھنے اور ریاست کو درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لئے مشاورت سے مشترکہ پالیسیاں بنائی جائیں ورنہ جرنیلی ادوار میں ملک و قوم نے جن صدمات و حادثات کا سامنا کیا ہے اسکی تفصیل سے بچہ بچہ اگاہ ہے۔ملکی تاریخ کا پہلا مارشلا1953 میں اس وقت کی لیگی حکومت نے قادیانیوں کی شر انگیزیوں کے رد عمل میں لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں نافذ کیا تھا۔مارشلا کی مخالفت میں صرف میاں افتخارالدین نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔انکا کہنا تھا کہ اج پنجاب میں مارشلا

impose

 ہوا ہے کل یہی فوجی پورے ،لک میں امریت راج نافذ کرکے بنیادی انسانی حقوق اور ازادی اظہار پر قدغن لگادیں گے۔میاں افتخار الدین کی پیشین گوئی ٹھیک 5 سال بعد سچ ثابت ہوئی جب جنرل ایوب خان نے ریاست کے پہلے صدر سکندر مرزا کو برطرف کرکے1958 میں ڈکٹیٹرشپ کا عظیم الشان افتتاح کیا۔ جرنیلوں کی وفاداری کی ایک جھلک اصغر خان کی بصیرت افروز کتاب

GENERALS IN POLITICS

 میں یوں درج ہے۔سکندر مرزا نے ہی جنرل ایوب خان کو چیف مارشلا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا جسکا احسان ایوب نے یوں چکایا کہ صرف 17 دنوںبعد ہی اپنے محسن کو حکومتی امور سے نہ صرف بیدخل کردیا بلکہ سکندر مرزا کو لندن کی جلاوطنی کا تحفہ بھی دے ڈالا اور خود فیلڈ مارشل بن بیٹھے۔8 اکتوبر1958 کو ایوب خان نے اپنی نشری تقریر میں کہا کہ پاکستان کی سلامتی جمہوریت کی بقا اور کرپشن کے خاتمے کے لئے یہ قدم ناگزیر تھا۔پاکستان ٹوٹنے کے قریب تھا کہ ہم نے بچا لیا۔ امر نمبر ون نے سیاست دانوں پر گونجدار اور کڑاکے دار تنقید کی کہ یہ مفاد پرست ٹولہ ہے۔پاکستان میں بدامنی اور انتشار انہی کی وجہ سے پھیلا ہواہے۔ہمارا نصب العین جمہوریت کی کارفرمائی ہے۔ ایوبی چیلوں نے جمہوریت کو مستحکم کرنے اور اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے پہلی مرتبہ سیا ست کے خون میں ہارس ٹریڈنگ کرپشن اور لوٹ مار کا ایسا زہر ملایا کہ جسکا تریاق ہمیں نصف صدی بعد بھی نہ مل سکا۔ایوب خان نے مختلف سیاسی جماعتوں کے بے ضمیرے رہنماوں کو پر کشش افرز دیکر کنونش لیگ کا قلعہ تعمیر کیا مگر جونہی 1969 میںانکے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو یہی پرشکوہ قلعہ رات کی تاریکیوں میں نہ صرف ہمیشہ کے لئے غتر بود ہوگیا بلکہ قلعے کا ملبہ اپنے ساتھ مشرقی پاکستان کو بھی گمنامی کے قبرستان میں دفن کرگیا۔ ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت سونا اگلنے والے دو دریا راوی اور ستلج بھارت کو بیچ ڈالے۔اس نے ریاستی جبر و استبداد کے بل بوتے پر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی الیکشن جیت کر خوب ہلہ گلہ کیا کہ ملک میں لسانی اویزش کا اغاز ہوگیا۔ اس نے اپنے تخلیق کردہ ائین پاکستان کا اپنے ہاتھوں گلا دبا دیا۔ائینی قوانین کی رو سے اقتدار قومی اسمبلی کے بنگالی سپیکر عبدالجبار کے سپرد کیا جانا تھا مگر ایوب خان نے جاتے جاتے قوم کے گلے میں ایک گھمبیر ترین شکنجہ کس دیا کہ ا قتدار کا ہما اپنی نسل کے دوسرے ڈکٹیٹر یحیی خان کے سر پر سجادیا جو ایک طرف سقوط ڈھاکہ کے تابوت میں اخری کیل ثابت ہوا تو دوسری طرف نقلی شیروں اور ایوان صدر کو جنرل رانیوں کا طوائف خانہ بنانے والوں کی کمان میں افوج پاکستان کے سینے پر شکست کا داغ لگ گیا۔ شرابیوں اور کبابیوں نے اقتدار کی ہوس میں ادھا ملک ہی بادہ و ساغر کے چھلکتے جاموں میں ڈبودیا۔ چار اور پانچ جولائی1977 کو سادہ منش درویش اور سادہ لوح دکھائی دینے والے جنرل ضیاالحق نے تیسری مرتبہ کچھ اس طرح جمہوری سرکار پر شب خون مارا کہ پی پی پی اور قومی اتحاد کے مابین تمام متنازعہ مسائل خوش اسلوبی سے طئے پاگئے تھے۔ضیا الحق بھٹو کو اپنا اور عالم اسلام کا ائیڈیل رہنما کہا کرتا۔ ضیاالحق نے پہلے خطاب میں سیاست دانوں کو کرپٹ کینہ پرور اور لٹیروں کے القابات دے ڈالے ۔اس نے درد مندانہ لہجے میں قوم کو بتایا کہ وہ 90 دنوں بعد منصفانہ الیکشن منعقد کروا کر بیرکوں میں چلے جائیں گے مگر ملکی تاریخ کا شاطر ترین جرنیل استعماری قوتوں اور امریکہ سے بھٹو کو دنیا سے روانہ کرنے کی سپاری لے چکا تھا جسکا واضح ثبوت چار اپریل1979 میں بھٹو کا جوڈیشل مرڈر ہے۔ضیا نے اقتدار کی لانگ ٹرم اور مضبوطی کے لئے اسلام کو بطور نسخہ استعمال کیا ۔وہ اسلامی نظام قائم کرنے کا خواہاں تھا مگر وہ جھانسے سپنے اور وعدے وعید کرکے گیارہ سال تخت نشین رہا۔ ضیا کا اسلام یوں نافذ ہوا کہ پورا ملک فرقہ وارانہ خونخواری ،لسانی ،گروہی فسادات اور مذہبی تخریب کاریوں کی لپیٹ میں اگیا۔ دور حاظر کی انتہاپسندی دہشت گردی اور خود کش بمباری کراچی کی ٹارگٹ کلنگ ضیائی دور کے قیمتی اور نایاب تحائف کی نشانیاں ہیں۔ ضیائی طیارے کی تباہی کے11 سال بعد مغربی لباسوں سے لبرل اور روشن خیال لگنے والا مشرف بارہ اکتوبر1999 میں ٹی وی سکرین پر نمودار ہوا اور قوم کو 7 نکاتی ایجنڈے کا خواب دکھا کر سیاہ و سپید کا مالک بن بیٹھا۔ ضیا الحق اور ایوب خان کی پیروی میں اس بانکے جرنیل نے سرکاری خذانے سے سینکڑوںبوریاں سیاسی فرزانوں پر نچھاورکی گئیں تاکہ کیو لیگ وجود میں ائے۔مشرف نے سابق پیش رو امروں کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے ریفرنڈم کا مکر و فریب کھیلا۔ دیکھنے میں کمانڈو نظر انے والا جرنیل گیدڑ نکلا کیونکہ وہ وائٹ ہاوس کی ایک فون کال پر ڈھیر ہوگیا۔مشرف نے سپریم کورٹ کو اپنا باجگزار بنانے کے لئے چیف جسٹس کو نان فنگشنل بنایا تو پوری قوم سڑکوں پر نکل ائی۔عدلیہ سے ٹکراو اور الیکشن میں

ppp

کی کامیابی نے مشرفی اقتدار کا چراغ گل کردیا۔اگر ہم 33 برسوں کی امریتوں کا تجزیہ کریں تو یہ حقیقت اشکار ہوتی ہے کہ جرنیلی ادوار کی تخت گردی اور تاج نوردی کے ادوار میں سوویلین حکومتی پریڈ کے مقابلے میں کرپشن لوٹ مار اقرباپروری بدامنی افراتفری اور سیاسی انتشار و افتراط کی مقدار اور تعداد زیادہ ہے۔ جرنیلوں نے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے کبھی لسانی عصبتیوں کو فروغ دیا تو کبھی لسانیت اور گروہی فرقہ پرستی کو ہوا دی۔یوں یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کو درپیش تمام ہوشربا اور سنگین تر مصائب کی زمہ داری غیر نمائندہ فوجی امریتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر دوسری ورلڈ وار کے بعد ظہور پزیر ہونے والے نئے عالمی نقشے پر نگاہ دوڑائیں تو پتہ لگتا ہے کہ کالونیل ازم سے ازادی پانے والی ان ریاستوں نے معاشی صنعتی اور سائنسی ترقی کی منازل طے کیں جہاں جمہوریت قائم تھی مگر وہ ممالک پسماندہ رہے جہاں شخصی امریت کا راج تھا حالانکہ وہاں وسائل کی فراوانی تھی۔انڈونیشیا اور برما کو بطور مثال پرکھا جاسکتا ہے۔سیاست کے طفل مکتب کے ادنی طالبعلم کی حثیت سے ہمیں یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان کی بقا اسلامی جمہوریت سے وابستہ ہے۔اگر قیام پاکستان کے فوری بعد ائین بن جاتا اور جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اتارا جاتا تو اج نہ صرف مشرقی پاکستان ہمارا بازو ہوتا بلکہ فرقہ واریت لسانیت اور نسلی قوم پرستی کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل پاتا۔ دیانتدار جرنیلوں کو ویلکم کہنے اور بندر کی طرح پل پل میں ادھر ادھر قلابازیاں کھانے والی سیاسی جماعتوں اور غیر جمہوری زہن رکھنے والے سیاسی بانکوں کی خدمت میں قوم پاکستان ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہے کہ نوزائیدہ جمہوریت کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جائے اور وہ جرنیلی دیوتاوں اور استعماری گروہوں کے اشاروں پر مارشل لا کی ورد زبانی ترک کردیں۔پاک قوم کا روشن مستقبل جمہوریت سے پیوستہ ہے۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved