اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔17-07-2010

   امریکہ کا ہاٹ ایشو اور نتیجہ

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

امریکہ میں میک کرسٹل کا تنازعہ ابھی تک ہاٹ ایشو بنا ہوا ہے۔ نیورلڈ اڈر کے نفاز کے بعد امریکہ ساری دنیا کا دادا گیر بن گیا۔ جس ریاست کے حکمرانوں نے امریکی احکامات کی سرتابی کی امریکی فورسز وہاں چڑھ دوڑیں۔امریکہ نے ویت نام کی شکست سے کوئی سبق حاصل نہ کیا اور نائن الیون کے بعد امریکہ اتحادیوں سمیت کابل و بغداد پر چڑھ دوڑا تاہم لاکھوں بے گناہوں کو قتل کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور معاشی کریک ڈاون کے بعد بھی امریکہ اور اسکے اتحادی عراق و افغانستان پر قابض ہیں۔روئے ارض کے ہر کونے میں جنگ و قتال کا میدان سجانے اور بے مقصد جنگوں میں امریکی فورسز کی شرکت اور گورے فوجیوں کی پے درپے ہلاکتوں نے امریکن افواج میں سیاسی عمل و دخل کو پروان چڑھایا۔ایک درویش مگر دور اندیش تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکی افواج میں دھڑے بندی امریکی استعماریت کے زوال کی پیشین گوئی کی ہے۔دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر وہ ریاست امروں اور ڈکٹیٹروں کی باجگزار بن گئی جہاں افواج میں گروہ بندی اور سیاسی نفوز پزیری نے جنم لیا۔کیا امریکی افواج میں بڑھتے ہوئے سیاسی رحجانات جمہوریت کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں؟ کیا کوئی امریکی جرنیل وائٹ ہاوس میں اسلام اباد کی تاریخ دہرا سکتا ہے؟ اسکے متعلق پیشین گوئی کرنا مشکل ہے تاہم یہ نظریہ ناممکنات میں شامل نہیں۔ جنرل ڈگلس ارتھر نے کورین جنگ کے دوران امریکہ صدر ٹرومین کے احکامات سے روگردانی کی تھی مگر سیاسی عوامل کی عدم موجودگی نے طرفین کی کشا کش میں جنرل ڈگلس کو پسپا ہونا پڑا۔امریکہ میں میک کرسٹل کی زہر قند تنقید کو جنرل ڈگلس ارتھر سے ملایا جارہا ہے۔امریکی دانشور بروس ایکر مین نے لاس اینجلس ٹائمز میں شائع ہونے والے ارٹیکل(عسکری قیادت میں سیاست) میں نشان دہی کی ہے کہ میک کرسٹل کا رویہ اس وسیع تر سیاست بازی کا عکاس ہے جو امریکی افواج میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔20 ویںصدی کے اوائل میں افواج کے لئے سیاست شجر ممنوعہ کا درجہ رکھتی تھی۔افواج کے پیروکار افیسرز اور جرنیل انتخابات میں ووٹ کاسٹ کرنے کو سیاسی د خل اندازی سے شبہیہ دیکر پولنگ سٹیشنز سے دور رہتے۔فوجی خفیہ رائے دہندگی کے قانون کے معرض وجود میں انے کے بعد ووٹ کاسٹ کرنے لگے۔1976 کے اختتام پر65 فیصد فوجی ازاد و خود مختیار سمجھے جاتے تھے۔ویت نام کی جنگ میں شرمناک شکست کے بعد ڈیموکریٹس کے صف اول لیڈروں نے عالمی جنگ کے اجماع کی سخت مخالفت کی۔جماعتی سیاست کاری عسکری مفادات کے لئے خطرات کی علامات کے طور پر ظاہر ہوئی۔فوجی جرنیل سیاست سے گریز کی پالیسی پر نظرثانی کرنے لگے۔ 1984 میں ریگن کے دور صدارت میں اعلی عہدوں پر 53 فیصد افیسرز ریپبلکن پارٹی کے ہمدرد و سپورٹرز بن گئے حالانکہ یہ شرح ماضی میں33٪ تھی جو خراماں خراماں بڑھتی رہی۔1996 میں ریپبلکن کے حمایتی فوجی افسران کی تعداد67٪ کی لائن کراس کرگئی۔ دوسری طرف2003 میں ڈیموکریٹس کی محبت کا دم بھرنے والے فوجی سرخیلوں کی تعداد صرف اور صرف 7 فیصد تھی۔سیاست بازی کا شوق مشغلہ بن کر فوجی اکیڈمیوں پر چھا گیا۔ویسٹ پوائنٹ نامی تھنک ٹینک نے2004 میں سروے کیا جس کی رو سے61٪ فوجی کیڈٹس ریپبلکن جبکہ 12٪ ڈیموکریٹس کے شیدائی تھے دیگر ازاد امیدواروں کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔کیڈٹس کی نصف تعداد کا کہنا تھا کہ ان پر سروے کے دوران اپنی سیاسی شناخت ظاہر کرنے کے لئے دباو ڈالاگیا۔ریپبلکن سے ہمدردی رکھنے والے کیڈٹس اس دباو کو کم سے کم رکھنا چاہتے تھے مگر دوسرے اس فلسفے سے اتفاق نہ کرسکے۔دو تہائی ریپبلکن نے اس دباو کی تائید کی۔یہ سروے رازداری میں کیا گیا4 فیصد کیڈٹس نے ڈیموکریٹس کی تائید کی۔بروس ایکر مین نے سروسز اکیڈمیوں کے سروے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان اعداد و شمار سے بڑھتی اور فزوں تر ہونے والی سیاست بازی کی سچائی اموختہ کی جاسکتی ہے۔کئی سالوں کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے ائی ہے کہ حاظر سروس فوجیوں نے رائے زنی کی ہے کہ اعلی فوجی افیسرز اس بات پر اصرار کریں کہ سایاسی قیادت اور سول بیوروکریسی فوجی نقط نظر سے اتفاق کریں مگر65 فیصد فوجی افسران اسے رائے عامہ پر چھوڑنے کے حق میں ہیں کہ وہ انکی پالیسیوں کی تائید کریں۔29 فیصد کا خیال ہے کہ سول زعما کی اپنے فوجی ہم منصبوں کے علاوہ صوابدید ہونی چاہیے کہ وہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہوں کہ کونسی فوجی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ موصوف کالم نویس بروس لکھتے ہیں کہ اس پس منظر میں اوبامہ میک کرسٹل کے استعفی پر زور دیتے اور وہ اعلی فوجی قیادت کی میٹنگ کرکے انہیں ائینی مبادیات کے تناظر میں غور کرنے کی ہدایت کرتے۔بروس کہتے ہیں کہ فوجی اکیڈمیوں کے نصاب پر توجہ دی جائے اور سول حکومت کو مرکزی حثیت دیکر اسکی اہمیت اجاگر کی جائے کیونکہ انکے پاس نئے انے والے فوجی افیسرز کے لئے حقیقی دنیا کو سمجھنے کے لئے ایسا مربوط نظام ہونا چاہیے جو انہیں اہم ترین معاملات کو سمجھنے کے لئے زہنی تربیت کا اہتمام کرسکے۔یہ مانا جاتا ہے کہ افواج سول حکومت کی تابعدار ہوتی ہیں مگر یہ اصول اج کی جدید دنیا میں مذید وضاحت طلب ہے۔بروس رائے دیتے ہیں کہ بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ حساس نوعیت کے معاملات میں واضح رہنمائی فراہم کی جائے نہ کہ سزا دینے والے شقوں کی تشریح کرکے فوری عمل کرنا چاہیے۔نئے قوانین کی تشریح سے عسکری قیادت کو مبرا نہیں ہونا چاہے۔ممکن ہے یہ اصول و قواعد پینٹاگون کے لئے مشکلات پیدا کردیں اور اسی طرح کا رد عمل وائٹ ہاوس سے بھی متوقع بن سکتا ہے مگر حقیقی پیش رفت سول حکومت اور عسکری قیادت کی زہنی ہم اہنگی سے متعلق کوڈ اف کنڈیکٹ سے ممکن ہوسکتی ہے۔بروس اخر میں صلاح دیتے نظر اتے ہیں کہ ملٹری اور سیاسی قیادت کے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے صدارتی کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں طرفین کے چیدہ چیدہ ماہرین شامل ہوں۔بروس اپنی دی گئی تجاویز کے فوائد گنواتے ہیں کہ یہ فوج کے اندر سرعت پزیر سیاست بازی کو روکنے میں مدد گار بن سکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بروس کا منصوبہ امریکہ کے لشکر میں پھیلی ہوئی سیاست بازی کے طوفان کے تلاطم میں کمی لانے کا سبب بن جائے مگر جہاں افواج کی91 فیصد اورکیڈٹس کی79 ٪ تعدادتربیت کے دوران ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کی ہمنوا بن کر سیاست گردی کا شوق پالنے لگے تو وہاں بیک جنبش قلم سپرپاور کی سپرپاور فورسز سے سیاست بازی کے عنصر کو ختم کردیا جائے یہ ممکن نہیں۔ امریکہ کی استبدادیت بھری جنگی پالیسیوں نے فوجی سرخیلوں کو ایک طرف میک کرسٹل کی طرح سرتابی کرنے پر مجبور کردیا تو دوسری طرف امریکہ کے جنگجوانہ و جارہانہ طرز عمل اور لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں نے جرنیلوں کو سرکشی اور سیاست گردی کی راہ دکھا دی۔اوبامہ اور گماشتوں کا فرض ہے کہ وہ بش ایسے قاتل اعظم کے انسانیت کش رویوں کو خیر باد کہہ دیں ورنہ افواج میں روز افزوں سیاست کاری نہ صرف عراق و افغانستان میں قابل نفریں شکست کا سبب بن جائیگی تو دوسری طرف کوئی سر پھرا میک کرسٹل وائٹ ہاوس پر قبضہ کرسکتا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved