اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
Email:-

tariq@albahar.ae

 
 
 
 
 
 
 
تاریخ اشاعت:۔13-06-2011

استدلال

کالم۔۔۔ طا رق حسین بٹ

اپوزیشن کا کام حکومت پر تنقید کرنا اور اسے دنیا کی سب سے زیادہ نکمی ، بے کار،پھسڈی اور عوام دشمن حکومت قرار د ینا ہو تا ہے۔ا پو زیشن کا سارا زور اس نقطے پر مرکوز ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ملک کی سلامتی اور اس کے استحکام کےلئے سنگین خطرہ ہے اور اگر یہ حکومت زیادہ دیر تک بر سرِ اقتدار رہی تو عوام کا جینا حرام کر دے گی اور ملک تبا ہ برباد ہو جائےگا ۔ الزامات کی فہرست میں سب سے بڑا لزام یہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکو مت نے ملک کو غیر ملکی آقاﺅں کے آگے گروی رکھ دیا ہے اور یہ ان کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ ان کی توپوں کا رخ اس ایک بات پر مرکوز ہو جا تا ہے کہ امریکہ فی ا لوقت پاکستان پر حکمرانی کر رہا ہے اور ہمارے حکمران ان کے سامنے کٹھ پتلیاں بنی ہو ئی ہیں اور ان کے اشاروں پر ناچتی ہیں ۔ ہمارے حکمرا نو ں کی اپنی نہ کو ئی رائے ہے اور نہ ہی کوئی سوچ۔ ہماری حکومت در اصل امریکہ کی سوچ کے تابع ہے اور اس کے احکامات کی بجا آوری میں جٹی ہوئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت کو ئی بھی مستحسن قدم اٹھائے اپوز یشن کا کام اس میں کیڑے نکالنا اور اسے ملعون قرار د ینا ہوتا ہے۔پاکستان اس لحاظ سے بڑا خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی اپوزیشن نے ہمیشہ حکومت کو ناکوں چنے چبوائے اور پو ری دنیا میں اس کی سبکی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔قومی مفاد اور جمہوری قدروں کی پاسداری کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا اور ذاتی مفادات کےلئے جمہوری قدروں کو پامال کرنے میں غیر جمہوری قوتوں کا سا تھ دیا اور یہ روش آج تک بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
ابھی کل کی بات ہے کہ حکومت نے سالانہ بجٹ اسمبلی میں پیش کیا اور اپوزیشن جماعتوں نے جسطرح اپنی سیاسی نا پختگی کا ثبوت دیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ نعرے ،ہلڑ بازی، بد تمیزی، الزامات اور گالم گلوچ نے نمائندگانِ قوم کے ذہنی بانجھ پن کو بالکل ننگا کر کے رکھ دیا۔ نمائندگانِ قوم کا فرض دلائل سے حکومتی پا یسیوں پر تنقید کرنا اور اس سے عوام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے لیکن یہ کیسے نمائندے ہیں جو دلیل اور منطق کی بجائے الزامات اور گھٹیا زبان استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ حفیظ شیخ سالانہ بجٹ پیش کر رہے تھے اور تہمینہ دولتا نہ ان پر چوڑیاں پھینک رہی تھیں ۔ کیا انداز ہے کیا سٹائل ہے ، لگتا ہے کہ یہ قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلکہ کسی فلم کی شوٹنگ کا سیٹ تھا جس میں مختلف اداکار اپنا اپنا رول ادا کر رہے تھے ۔ کسی کے حصے میں گالی دینا ہے کسی کے حصے میں چوڑیاں پھینکنا ہے کسی کے حصے میں آستینیں چڑھانا ہے۔جب تک فلم میں سنسنی خیزی پیدا نہیں کی جاتی فلم کی کامیابی کے امکانات صفر ہو تے ہیں اور میرے یہ سارے محترم دو ست فلم کی سنسنی خیزی کےلئے اپنا اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ پوری قوم ٹیلیو یژنوں کے سامنے بیٹھی ہوئی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی اور اپنے نمائندگاں کی عقل پر ماتم کر رہی تھی۔ معا ملہ بجٹ کا ہے اور اس پر ردِ عمل ایسے ہو رہا ہے جیسے موچی دروازے میں کوئی جلسہ عام منعقد ہو رہا ہے جذباتیت ، نعروں اور بھڑکوں سے بھر پور شاہکار ۔خدارا کچھ تو اس قوم پر رحم فرمائیے اور اپنے وہ فرا ئض جن کی بجا آوری کےلئے قوم نے آپ کا نتخاب کیا ہے اسے احسن طریقے سے سر انجام دیجئے۔قوم کا پیسہ اور وقت ضائع مت کیجئے۔حالیہ بجٹ میں کمزوریوں اور نقائص کو طشت از بام کر کے عوام کو آگاہ کیجئے تا کہ حکومت کی اصلاح کا پہلو نمایاں ہو سکے لیکن آپ اپنا حقیقی کام چھوڑ کر خرافات میں الجھ کر قوم کی راہنمائی سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔۔
جنرل پرویز مشرف کا دورِ حکومت تھا اور متحدہ مجلسِ عمل نے اُس اسمبلی میں اسی طرح کا طرزِ عمل اختیار کیا تھا ۔روزانہ ڈیسک بجائے جاتے تھے، کاغذ پھاڑے جاتے تھے اور شور شرابے سے پالیمنٹ کی کاروائی میں رکاوٹ ڈالی جاتی تھی لیکن کیا اس سے کو ئی اعلی مقاصد حاصل کئے جا سکے۔ کیا جنرل پرویز مشرف کے ا ندازِ حکومت پر اس کا کچھ ا ثر ُ پڑا تھا کیا اس نے اس ہنگامہ آرائی سے دب کر اپنی پالیسیاں بدل لی تھیں ، کیا ا س نے اس بے جا ہنگاموںکے سامنے اپنا استعفے پیش کر دیا تھا۔ کچھ بھی نہیںہوا تھا سوائے اس کے کہ نمائندگانِ قوم نے قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا اور اپنے فرائض سے بد دیانتی کی۔سالہاسال کی ہنگا مہ آرا ئی کے بعدمتحدہ مجلسِ عمل کو ا حساس ہوا کہ وہ غلط وکٹ پر کھیل رہی ہے لہذا اسے ا پنے اس غیر مہذب انداز کو ترک کرنا پڑا تھا اور پارلیمنٹ کی کاروائی میں حصہ لینا پڑا تھا جو کہ معقول طرزِ عمل تھا۔ حکومتی پالیسیوں پر اپو زیشن کی تنقید سے عوام کا شعور بلند ہوا ان میں نظام کو بدل دینے کی امنگ بیدار ہو ئی اور یوں جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومت کئے خلاف عوام میں ایک مثبت اور توانا اندازِ فکر نے جنم لیا۔ وکلا تحریک نے عوام کی آگاہی اور جنرل پرویز مشرف کے قائم کردہ نظام سے چھٹکارے میں بنیادی کردار ادا کیا اور یوں جنرل پرویز مشرف کی آ مریت اپنی موت آپ مر گئی ۔۔
کچھ لوگ اپنے حالیہ احتجاج کو حق بجانب قرار دینے کی خاطر اسے محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس احتجاج کے ساتھ جس کا مظاہرہ انھوں نے صدر غلام اسحاق خان کے خلاف کیا تھا ملانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ سرا سر نا انصافی ہے۔ ایسا سوچنے والے صدر غلام اسحاق خان کے منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغض کو فراموش کردیتے ہیں ۔ صدر غلام اسحاق خان کے صدارتی خطاب کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کے گو بابا گو کے نعر ے نے ہلچل مچا دی تھی۔ پاکستان کی پار لیما نی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد احتجاج تھا یہ احتجاج ایک ایسے شخص کے خلاف تھا جس نے دنیائے اسلام کی پہلی منتخب وزیرِ اعظم کے خلاف تضحیک آمیز رویہ اپنا یا تھا۔۸۸۹۱ کے انتحابات میں واضح برتری حاصل کرنے کے باوجود اسے اقتدار منتقل نہیں کیا جارہا تھا بلکہ حیلے بہا نوں سے پی پی پی کی فتح کو شکست میں بدلنے کے جتن کئے جا رہے تھے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ ،جنر ل حمید گل اور فوج کے دوسرے جرنیل پی پی پی کی جیت پر غصے میں تھے لہذا پی پی پی کو اقتدار منتقل کرنا اپنی سیاسی موت تصو کرتے تھے۔ پہلے پی پی پی کا راستہ روکنے کے لئے اسلا می جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا اور جب عوام نے اس اتحاد کو مسترد کر دیا تو پھر طویل انتظار کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزیرِ اعظم کے عہدے کےلئے نامزد کیا گیا(اس وقت آئین میں وزیرِ اعظم کی نامزدگی کا اختیار صدر کے پاس تھا) لیکن اس سے قبل میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کی وزارتِ اعلی کی مسند پر بٹھایا گیا تاکہ پی پی پی کو اسکی حدود میں رکھا جا سکے۔ بد نیتی تو پہلے ہی تھی لہذا دو سال کے بعد صدر غلام اسحاق خان نے پی پی پی کی حکومت کو کرپشن کے الزامات کے تحت رخصت کر دیا اور آصف علی زرداری کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔عدالتِ عظمی نے بھی صدرِ پاکستان کی چارج شیٹ کی توثیق کر دی اور یوں پی پی پی کی گیارہ سال بعد قائم ہونے والی حکومت صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اختتام پذیر ہو ئی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا احتجاج ایسے ہی شقی القلب شخص کے خلاف تھا اور اس میں بھی پارلیمانی حدود اور آداب کو ملخو ظِ خاطر رکھا گیاتھا۔یہ وہی صدر غلام اسحاق خان ہے جسکی حکومتی معا ملات میں غیر ضروری مداخلت، پھڈے بازی اور آمرانہ رویے کے خلاف میاں محمد نواز شریف نے علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور اسے ایوانِ صدارت سے نکال کر گو بابا گو کے نعرے کو حقیقت کا روپ عطا کیا تھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف کیا کچھ نہیں کیا گیا ۔ اسکی جیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ۔ کڑی شرائط کے تحت شریکِ اقتدار کیا گیا اور چند ماہ کے بعد اس اقتدار کا کرپشن کے الزامات کے تحت خاتمہ کر دیا گیا۔ اندھیر نگری چوپٹ راجہ کے مصداق کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں تھی اور گو بابا گو ا سی آمرانہ فلسفے کے خلاف صدائے احتجاج تھی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کا احتجاج منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف یا کسی وفاقی و زیر کے خلاف نہیں تھا بلکہ ایک ایسے شخص کے خلاف تھا جس نے جمہوریت کے خلاف سازش کی تھی اور ایسے شخص کو ایکسپوز کرنا ضروری تھا تاکہ عوام حقائق سے با خبر ہو سکیں۔ میاں صاحب کے دوسرے دورِ حکومت میں بے شمار زیادتیوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے آئین کی چودھویں ترمیم میں میاں محمد نواز شریف کا بھر پور ساتھ دیا اور آئین کی بحالی میں اپنا کردار ادا کیا لیکن حالیہ بجٹ اجلاس میں وزیرِ خزانہ ہ حفیظ شیخ کے خلاف جس طرح کا ر ویہ اختیار کیا گیا اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے ۔ وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ ایک شریف اور حلیم ا لطبع انسان ہیں اور انھوں نے تو کسی واردات کا ار تکاب نہیں کیا پھر اس بیچارے کو کس بات کی سزا دی گئی ہے۔ در اصل ہم جمہوری روح کو خود ہی زخمی کرتے ہیں اور پھر جب جمہوری بساط لپیٹ دی جاتی ہے تو عوام جمہوری قوتوں کا ساتھ نہیں دیتے کیونکہ قائدین نے کوئی درخشاں رو ائت قائم نہیں کی ہو تی ۔
اس وقت پاکستان میں جمہوری حکومت بر سرِ اقتدار ہے جو مفاہمتی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور اپنے مخالفین کو پسِ زندان رکھنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتی ۔میڈیا بالکل آزاد ہے جو ہر روز نئی کہانیاں تراشتا اور حکومت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی جدو جہد میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔حکومت جہاں مناسب سمجھتی ہے میڈیاپر اٹھائے جانے والے الزامات اور سوالات پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتی ہے اور یوں جمہور نظام اپنی ڈگر پر محوِ سفر ہے۔دانش منطق اور دلیل میں اتنی طاقت تو بہر حال ہوتی ہے کہ یہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے لیکن ہنگامہ آرائی تو الٹا عوام میںخود کو رسوا کرنے کے متر دف ہو تی ہے۔ میاں محمد نواز شریف کو جب سے ان کے مشیروں نے عمران خان کے بارے میں یہ بریفنگ دی ہے کہ آئی ایس آئی عمران خان کو پنجاب میں فعال کردار دینا چاہتی ہے ان کا پارہ چڑھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ان کا سارا غصہ حکومت کے خلاف سخت موقف کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اگر میاں صاحب کو آئی ایس آئی یا دوسری ایجنسیوں سے شکائت ہے تو اس کا بہترین حل تو یہ ہے کہ ہ جمہوری حکومت کو مزید مضبو ط کریں تا کہ مہم جو ﺅں کےلئے حالات مزید مشکل ہو جائیں اور وہ جمہوریری اداروں اور جمہوری حکومتوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ جمہوری حکومت کے خلاف محاذ آرائی اور دھینگا مشتی انہی قوتوں کی مضبو طی کا باعث بنے گی جو اس وقت میاں صاحب کی نظر میں جمہوریت کےلئے سمِ قاتل ہیں لہذا انھیں اپنے موجودہ رویے پر نظر ثانی کرنی ہوگی نہیں تو جمہوریت پر شب خون کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگااو پھر ایک اور کڑی جلاوطنی میاں صاحب کو ہی برداشت کرنی پڑے گی ۔قائدِ حزبِ اختلاف چوہدری نثار علی خان کا تو کچھ بھی نہیں جائے گا وہ تو خفیہ سمجھوتوں کے بعد یہی پر عیش کرتا ہوا نظر آئے گا۔۔۔
وہ مناظر جو ہم اکثرو بیشتر اپنی اسمبلیوں کے اندر دیکھتے ہیں اس قسم کے مناظر ہمیں مہذ ب دنیا کی اسمبلیوں میں کبھی بھی دیکھنے کو نہیں ملتے ۔ وہاں پر بھی قانون سازی ہوتی ہے وہاں پر بھی اپوزیشن ہوتی ہے وہاں پر بھی اختلافِ رائے ہوتا ہے وہاں پر بھی پسند و ناپسند کا سوال ابھرتا ہے لیکن وہ لوگ ملکی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھتے ہیں اور کوئی ایسی حرکت نہیں کرتے جس سے نظام کو ضعف پہنچے یا نقصان پہنچنے کا احتمال ہواور دنیا کے سامنے ان کی سبکی ہو۔ سارا کچھ اتنے احسن طریقہ سے سرانجام پاتا ہے کہ جمہوری رویوں پر رشک آتا ہے اور جمہوری نظام کی افادیت پر ایمان اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔اکثریت قانون سازی کرتی جاتی ہے اپوزیشن اس پر اپنا اختلافی نقطہ نظر پیش کرتی جاتی ہے ۔نہ کہیں پر الزام تراشی نہ کہیں پہ دشنام طرازی، ساری بحث قومی مفاد کے گرد گھومتی ہے او ر اسی کے مطا بق فیصلے ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کے بارے میں مشہور تھا کہ آزادی سے قبل جس دن انھوں نے اسمبلی میں تقریر کرنی ہوتی تھی ساری گیلریاں مہمانوں نے بھر جایا کرتی تھیں کیونکہ وہ اپنی تقر یر پر بڑی محنت کیا کرتے تھے ۔اور انتہائی مرصع دلائل سے اپنا نقطہ نظر عوا م کے سامنے رکھتے تھے۔ ان کی دانش اور بصیرت لوگوں کے اذہان کو نئی سوچ اور فکر کی روشنی عطا کرتی تھی جس سے انھیں حالات کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے میں راہنمائی ملتی تھی یہی وجہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مقبولیت خوشبو کی طرح ہر سو پھیلتی چلی گئی اور اسی مقبولیت نے قیامِ پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب میرا بھائی میں رقم طراز ہیں کی قائدِ اعظم محمد علی جناح بڑے سے بڑے مقدمے کو ایک دلیل سے بھک سے اڑا دیا کرتے تھے۔ میں جب بھی انھیں ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیشِ نظر آرام کرنے کا مشورہ دیتی تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ کیا تم نے حالتِ جنگ میں کسی جرنیل کو چھٹی لیتے ہوئے دیکھا ہے اور میں تو ایک پوری قوم کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہوں لہذا میں آرام کیسے کر سکتا ہوں اور میںقائدِ اعظم محمد علی جناح کے استدلال کے سامنے ہار جاتی۔ پاکستانی قوم کو اس وقت ایسے ہی استدلال کی ضرورت ہے جو ان میں تحمل اور برداشت کے جذبوں کی آبیاری کر کے انھیں فہم و فراست سے اپنے مسائل حل کرنے کی راہ دکھاسکے۔۔۔۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team