اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-zamshamalik@gmail.com

کالم نگارذوالفقارعلی ملک کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔12-06-2011

روشنی کا سفیر
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذوالفقارعلی ملک
پاکستان میں کچھ عرصے میں ہونے والے دو واقعات نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے پہلا واقعہ سیالکوٹ میں پیش آیا جب دو بھائیوں منیب اور حافظ مغیث کو ایک ہجوم میں ڈنڈے مار مار کر نہ صرف قتل کردیاگیا بلکہ ان کے منہ کالے کرکے لاشیں الٹی لٹکادی گئیں اس دوران دونوں بھائی مارنے والوں کی منتیں کرتے رہے لیکن کسی بھی ظالم کے کان پر جوں نہیں رینگی نہ ہی اتنے بڑے ہجوم میں موجود کسی بھی شخص نے اسے چھڑوانے کی کوشش کی اس واقعے کی ایک اہم بات یہ تھی کہ موقع پر پولیس اہلکار بھی موجود تھے جن کا کام اس وقت تو تماشہ دیکھنا ہی تھا لیکن بعد میں ان ظالموں کو تحفظ فراہم کرنے کی سعی کرنا بھی تھا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان بھائیوں کو واقعے کے بعد ڈاکو قراردینے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔
دوسرا واقعہ کوئٹہ میں پیش آیا جہاں ایک چیچن خاندان جن میں دو خواتین جن میں سے ایک حاملہ تھی اورایک بچی کے علاوہ دو مرد بھی شامل تھے کو پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے فائرنگ کرکے بیدردی کے ساتھ قتل کردیا اس واقعے کی اہم بات بھی یہ تھی کہ جب ظالم فائرنگ کررہے تھے تو وہ عورتیں بھی فریاد کررہی تھیں لیکن کسی نے نہ سنی دوسری اہم بات کہ مارنے والے پولیس و رینجرز اہلکار تھے تیسری بات ان بے گناہ چیچنز مسلمانوں کو دہشت گرد قراردینے کی ہرممکن کوشش کی گئی ۔
?اب تیسرے واقعے کی طرف چلتے ہیں کراچی میں اٹھارہ سالہ نوجوان سرفراز شاہ جو گھر سے پارک میں جانے کا کہہ کر نکلا اور بے نظیر بھٹو پارک میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا جہاں اس کی تلخ کلامی افسر خان نامی شخص سے ہوگئی افسر خان جو کہ اس پارک میں سیکورٹی پر مامور تھا نے نوجوان کو بالوں سے پکڑ لیا اور مارتے ہوئے قریب کھڑے رینجرز کے اہلکاروں کی طرف لے جانے لگا قریب پہنچ کر اس نے سرفراز شاہ کو زوردار طریقے سے رینجرز اہلکاروں کی طرف دھکا دیا اور پیچھے سے زوردار انداز میں ایک لات بھی جڑ دی رینجرز کے شیر جوانوں نے نہتے نوجوان کو اپنی گن پوائنٹ پر رکھ لیا اتنے میں ایک چلایا مارو اسے نوجوان سرفراز شاہ اس نوجوانی میں موت کو سامنے دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا اور ان رینجرز کے اہلکاروں کی منتیں کرنے لگا اور ان کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا جس پر طاقت کے نشے میں چور رینجرز کے اہلکار وں میں سے ایک نے فرعونیت کا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے نوجوان سرفراز شاہ پر گولیاں چلانا شروع کردیں بڑی دلدوز چیخیں ہوتی ہیں جو ایک بے گنا ہ کے منہ سے موت کو سامنے دیکھ کر اور یوں گولیاں کھا کر نکلتی ہیں ان چیخوں میں جہاں درد کی اذیت اور کرب ہوتا ہے وہاں ایک بے بس مظلوم کی فریاد بھی ہوتی ہے جو یقیناً ساتویں آسمان تک بلا رکاوٹ گئی ہوگی تب اللہ کی قدرت کا م آڑے آتی ہے اور ایک نوجوان جس کا تعلق سندھی زبان کے مقامی چینل سے تھا اور وہ کیمرہ مین کے فرائض سرانجام دیتا تھا اللہ کے سپاہی کی طرح وہاں آموجود ہوا جب یہ واقع رونما ہورہا تھا اور اس نے انتہائی دلیری سے کام لیتے ہوئے سارے واقعے کی ویڈیو بنا ڈالی ان رینجرز کے فرعونوں کے سامنے ویڈیو بنالینا کوئی معمولی بات نہیں ہے یقیناً اس میں اسے اللہ کی خصوصی مدد حاصل رہی ہوگی جس نے اسے محفوظ رکھا اس واقعے کے بعد سے اب تک اس نوجوان کو دھمکی آمیز فون موصول ہورہے ہیں ۔
اس واقعے میں جب سرفراز شاہ زمین پر تڑپ رہا تھا تو رینجرز کے اہلکاروں نے اسے تب تک تڑپنے دیا جب تک اس کی چیخیں دم نہ توڑ گئیں اس کے بعد اسے ادھ موئی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکو ڈکلیئر کر تے ہوئے ہسپتال میں داخل کرادیاگیا جہاں وہ بہت زیادہ خون بہہ جانے کے باعث جانبر نہ ہوسکا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔
مقتول سرفراز شاہ کراچی کے مقامی چینل کا رپورٹر تھا یہ بات جیسے ہی رینجرز کے اہلکاروں کو پتہ چلی انھوں نے فوراً نہ صرف واقعے کے ثبوت مٹانے کی کوشش شروع کردی جس کے لئے فوری جائے واردات دھو ڈالی گئی اس کے علاوہ بوٹ بیسن تھانے میں جا کر نوجوان سرفراز شاہ کے خلاف دو ایف آئی آر درج کروادی گئیں جو ایف آئی آر نمبر 225/2011زیردفعہ 324/353/393تھیں مدعی افسر خان ولد خان ولد گل محی الدین تھا ۔ جس کا ایف آئی آر میں مکان نمبر 396جنرل آباد شیریں جناح کالونی کراچی ایڈریس درج ہے اور اس کا موبائل نمبر 0342-2850085ہے ۔ اس نے ایف آئی آر میں یہ بھی لکھوایا کہ میں منرل واٹر کا کام کرتا ہوں میرادوست عالم زیب جو کہ پولیس میں کام کرتا ہے اپنی فیملی کے ہمراہ پارک میں آیا ہوا تھا میں اس کے لئے پانی لینے گیا واپس آیا تو کیا دیکھا کہ ایک نوجوان عالم زیب اور اس کی بیوی کو پستول دکھا کر پیسے مانگ رہا ہے جس پر وہاں موجود فیملیز کی وجہ سے شور مچ گیا رینجرز اہککار وہاں ڈیوٹی پر تھے جو فوراً ہی موقع پر پہنچ گئے جس پر ڈاکو گھبرا گیا اور اس نے رینجرز اہلکار وں پر فائرنگ کردی جس کے جواب میں رینجرز اہلکاروں نے بھی فائرنگ کی جس سے زخمی ہو کر ڈاکو گر پڑا اور اس کا پستول بھی گر گیا ۔
یہ تھے ایف آئی آر کے مندرجات یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ پولیس اہلکار عالم زیب اور اس کی فیملی کو لوٹا جارہا تھا تو ایف آئی آر بھی اس کی طرف سے درج ہونی چاہیئے تھی نہ کہ ایک منرل واٹر والے کی طرف سے اور دوسری بات یہ کہ یہ شخص جو منرل واٹر والا بنا ہوا ہے اور اس نے ایف آئی آر کٹوائی وہی شخص ہے جس نے سرفراز شاہ کو بالوں سے پکڑا اور ٹھڈا مار کر رینجرز والوں کی طرف لے گیا تھا ۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا بڑا تضاد ہے ساری بات میں صحافی کا بھائی ہونے کی وجہ سے تمام صحافیوں نے سرفراز شاہ کیلئے احتجاج کرنا شروع کردیا ہسپتال کے باہر جب احتجاج بڑھا تو اعلی حکام نے فوراً اس واقعے کا نوٹس لے کر صحافیوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا مطالبہ تھا کہ سرفراز شاہ ناحق قتل ہوا ہے صحافیوں تنظیموں کے عہدیداروں کے ساتھ سالک شاہ تھانے پہنچ گیا جہاں ایف آئی آر کٹوانے کی ناکام کوشش کی گئی آپ رینجرز اور پولیس کی اس مضبوط ملی بھگت کو دیکھیں کہ صحافی جو خود انتہائی با رسوخ ہوتے ہیں اور ان کی تنظیموں کے عہدیدار انتہائی پڑھے لکھے اور تیز طرار لوگ ہوتے ہیں ان میں سے کئی تو خود تحقیقاتی رپورٹنگ کے ماہر اور ایسے معاملات کو ہینڈل کرنے والے ہوتے ہیں لیکن ان سب کو تھانے سے ناکام آنا پڑا اور وہ ایف آئی آر درج نہ کرواسکے جس پر بالآخر لاش لے کر سی ایم ہائوس کے باہر جانے کا فیصلہ کیا گیا یہاں سے ایک اور المیہ جنم لیتا ہے اور وہ یہ کہ پانچ گھنٹے تمام صحافی اور سالک شاہ کے عزیز و اقارب دوست وغیرہ سی ایم ہائوس کے باہر بیٹھے رہے اور ایف آئی آر درج نہیں کی گئی نہ ہی وزیراعلی سندھ سمیت کسی کے بھی کان پر جوں رینگی اتنی دیر میں قدرت نے اپنا کھیل کھیلا اور مقامی سندھی چینل پر واقعے کی فوٹیج چلائی گئی جس میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز شاہ کے قتل کے متعلق تمام حقیقت کھل کر سامنے آگئی فوٹیج میں صاف دیکھا جاسکتا تھا کہ کس بیدردی کے ساتھ سرفراز شاہ کو قتل کیا گیا فوٹیج آنے کے بعد اعلی حکام میں کھلبلی مچ گئی صحافیوں نے فوری طور پر اگلا کام یہ کیا کہ واقع کی فوٹیج سی ایم ہائوس کے باہر ایک بڑے پروجیکٹر کے اوپر چلادی گئی جس پر وزیراعلی سندھ سمیت تمام لوگ فوری کارروائی پر مجبور ہوگئے ۔لیکن کارروائی کیسی آپ کو پتہ ہے کہ پاکستان میں جب ہمارے حکام جن میں تمام سیاستدان بھی شامل ہیں کارروائی کا کہہ کر آپ کو ٹالتے کیسے ہیں ۔
’’کمیٹی بنادی گئی ہے ‘‘ ’’میں نے نوٹس لے لیا ہے ‘‘ ’’تحقیقاتی رپورٹ آتے ہی کارروائی کی جائے گی‘‘یہ وہ جملے ہیں بلکہ طفل تسلیاں ہیں اور ٹالنے کے لئے پاکستان میں ان سے بہتر جملے نہیں ہیں یہی یہاں بھی کیا گیا ۔
لیکن یہاں پر کہانی میں ٹوئسٹ آتا ہے اور وہ ہوتا ہے جس کی پاکستانی عوام کو توقع بھی تھی ‘چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار حسین چوہدری اس واقعے کا نوٹس لیتے ہیں اور یوں معاملہ سپریم کورٹ آف
پاکستان میں اگلے ہی روز ہنگامی طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
مقدمے میں آئی جی سندھ اور ڈی جی رینجرز کی طرف سے فوری اہلکاروں کے خلاف ایکشن نہ لینے اور یہ بیان دینے پر کہ ریمانڈ کے بعد تفتیش کی جائے گی جناب چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری حیرت زدہ رہ گئے اور بولے کہ جب ویڈیو میں سب نظر آرہا ہے تو تفیش کیسی مجرموں کا آپ کو پتہ ہے اور ان کا جرم آپ نے خود دیکھ لیا تو اب تفتیش کیسی اب تو فیصلہ کرنا ہے آپ نے ۔
اس بات پر دونوں بڑے عہدیدار آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور جناب چیف جسٹس کی جہاندیدہ نظریں یہ بھانپ گئیں کہ ان لوگوں نے کارروائی نہیں کرنی ڈرامہ کرنا ہے اور ملزم بچ جائیں گے لیکن جہاں انصاف کرنے والے زندہ ہوں وہاں ایسا نہیں ہوتا جناب چیف جسٹس صاحب نے فوراً آئی جی سندھ اور ڈی جی ریجنرز کو فارغ کرنے کا حکم دیا اور اس کے لئے حکومت کو تین دن کی مہلت دی ‘ اس کے علاوہ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ مقدمے کا فیصلہ تیس دن کے اندر کیا جائے ان کے اس فیصلے کے بعد میرے دل میں جو یہ خیال پختہ ہورہا تھا کہ اب پاکستان اپنی آخری ہچکیاں لینے لگا ہے بدل گیا اور یہ خیال پیدا ہوگیا ہے کہ چیف جسٹس صاحب جیسے کچھ بھی افراد اور آگئے تو یقیناً پاکستان بچ جائے گا ورنہ سیالکوٹ ‘ کوئٹہ اور اب کراچی میں جس طرح کے درندے سامنے آئے ہیں اور پاکستان ان لوگوں کا اثرورسوخ دیکھ کر صاف سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستان کیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور عنقریب یہ پاکستان کو ایک بہت بڑی تباہی کی طرف دھکیل دیں گے ایک عذاب مسلسل کی طرف ۔
چیف جسٹس آف پاکستان یقیناً اس وقت روشنی کے سفیر ہیں جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اندھیرے کے سفیروں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلے کے فوری بعد یہ بیان دیا ہے کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو عہدوں سے ہٹانا ناانصافی ہے اہلکاروں کا فعل انفرادی تھا ۔
میرا ان سے یہ سوال ہے کہ اگر ہر ادارے کے افراد انفرادی فعل انجام دینا شروع کردیں گے تو پھر کیا ہمار ا ملک چل پائے گا ۔
وزیرقانون سندھ کہہ رہے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے میرا ان سے بھی ایک سوال ہے کہ اگر سرفراز شاہ ان کا اپنا بیٹا ہوتا تو کیا وہ پھر بھی یہ اپیل کرتے ۔
میری ایک درخواست اہل وطن سے بھی ہے کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کی حوصلہ افزائی کریں کوئی ایک ہی صحیح ہمارے درمیان روشنی کا سفیر تو ہے ۔اور ہم نے ان کی حمایت کی تو یقیناً ہم بھی کل بخشش کے حقدار ہوسکیں گے ورنہ برائی کو برائی نہ سمجھنے والا بھی برائی کرنے والے کے ساتھ شریک ہوتا ہے
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved