اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-zamshamalik@gmail.com

کالم نگارذوالفقارعلی ملک کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-06-2011

بٹ او ر پٹھان کی جنگ ‘ جیتا کون
کالم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذوالفقارعلی ملک
اس سے قبل میں گھر تو آخر اپنا ہے کہ لوگو کے ساتھ کالم لکھتا تھا بہت شکریہ کہ اردو پاور ویب سائٹ نے میرے لئے اپنا ایک صفحہ مختص کیا تو میرا بھی یہ دل کیا کہ میں ان کے لئے کچھ الگ انداز میں رکھوں انوسٹی گیٹو جرنلزم میرا شعبہ رہا ہے اور اسی کے حوالے سے میں اب ارد و پاور کے لئے کالم لکھوں گا میں اس وقت بطور ایڈیٹر ایک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی نیوز واچ کے لئے بطور ایڈیٹر کام کررہا ہوں اور دو کینیڈین اخبارات سے بھی وابستہ ہوںکافی عرصے سے کالم نگاری کررہا ہوں لیکن سنجیدہ کالم کم لکھے ہیں اس انداز میں لکھتا رہا ہوں کہ کالم پڑھنے دلچسپی لے کر پڑھے اردو پاور کے لئے سب سے پہلے سنجیدہ کالمز لکھنے شروع کئے ہیں امید ہے آپ کو پسند آئیں گے ۔
پاکستان اس وقت انتہائی گھمبیر صورتحال کا شکار ہے اور اس وقت جہاں اور بہت سارے مسائل پاکستان کو درپیش ہیں وہاں ایک بڑا مسئلہ سکیورٹی کا ہے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس اور قومی اسمبلی ہونے کی وجہ سے کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس کو سیل شہر کی طرح رکھا جائے اور یہ سیل کرنے کی ذمہ داری پولیس کو سونپی گئی ہر سڑک اور داخلی راستے پر پولیس کی چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود قومی دارلحکومت میں داخل ہونا کسی بھی دہشت گرد کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے بے شمار راستے اب بھی ایسے ہیں جہاں سے باآسانی بغیر کسی چیکنگ کے اور کسی کی نظر میں آئے داخل ہوا جاسکتا ہے اس بات کا ثبوت پچھلے دنوں ہونے والے دو بم دھماکے بھی ہیں جن میں سے ایک دھماکہ اسلام آباد سے مری جانیوالی سڑک پر اسلام آباد کے نواحی گائوں ملپور کے قریب سڑک کنارے ہوا اس دھماکے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا البتہ تین افراد زخمی ضرور ہوئے اگلے ہی روز سیکٹر آئی ایٹ مرکز میں ایک نجی بینک کے داخلی دروازے پر خودکش حملہ آور سمیت تین افراد ہلاک ہوگئے یہ وہی علاقہ ہے جہاں کچھ دن پہلے دن دیہاڑے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو قتل کیا گیا تھا ان واقعات نے جہاں اسلام آباد کی فول پروف سکیورٹی کو بے نقاب کیا ہے وہاں ہی اس بات کے خدشات بھی بڑھا دیئے ہیں کہ یہ چھوٹے واقعات کسی بڑے حملے کی ریہرسل بھی ہوسکتے ہیں اسلام آباد میں ناقص سیکورٹی کی جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں وہاں ایک بڑی وجہ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کا وی آئی پی ڈیوٹیز پر مامور ہونا بھی ہے سیفٹی کے عالمی قانون کے لحاظ سے بھی وفاقی دارلحکومت کی پولیس کی تعداد آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے دنیا کے باقی ممالک میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے جو اہلکار شہریوں کی حفاظت کے لئے رکھے جاتے ہیں ان کے اندر یہ اہلیت بھی ہوتی ہے لیکن آپ وفاقی دارلحکومت کے ان جوانوں کو دیکھیں تو ان میں سے اکثریت اتنی تربیت یافتہ نہیں ہے اور اب مسلسل لگی ان چوکیوں پر مامور جوانوں نے گاڑی والوں سے پیسے بھی وصول کرنا شروع کردیئے ہیں اس حوالے سے ایک واقعہ گزشتہ دنوں بھی پیش آیا کہ ترنول کے قریب لگی چیک پوسٹ پر موجود پولیس اہلکار ہر گاڑی کو روک کر ان سے اڑھائی سو روپے فی کس وصول کرتے رہے ان کے ساتھ ایک شخص سول کپڑوں میں بھی موجود تھا جس کو وہ ڈی آئی جی کا آپریٹر بول رہے تھے اور پیسے بھی وہی وصول کررہا تھا ۔ اہم آرمی مراکز راولپنڈی میں ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کا جڑواں شہر راولپنڈی دہشت گردوں کا بڑی کارروائیاں کرنے کے لئے فیورٹ رہا ہے اور انہوں نے وہاں موجود جنرل ہیڈ کوارٹر کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے علاوہ کینٹ میں موجود ایک مسجد جو جی ایچ کیو کے قریب ہی واقعہ ہے نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تھا انٹیلی جنس اداروں کے مطابق راولپنڈی میں پھر ایک بڑا حملہ ہوسکتا ہے جس پر راولپنڈی میں بھی سکیورٹی ادارے انتہائی الرٹ ہیں اب تک زیادہ تر حملے کینٹ کے ایریا میں ہوئے ہیں اسی وجہ سے اہم فوجی دفاتر اور حساس مقامات کے نزدیک کیمروں کے ذریعے ہر آنے جانے والے کی نگرانی کی جارہی ہے اس کے علاوہ باقاعدہ مورچے بھی بعض جگہوں پر بنائے گئے ہیں چیک پوسٹوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ پنجاب پولیس حسب معمول لوگوں کو روکتی اور پیسے لے کر چھوڑ رہی ہے انٹیلی جنس اداروں کے مطابق شر پسند عناصر پی اے ایف چکلالہ بیس اور بینظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ کو نشانہ بناسکتے ہیں اس اطلاع کے بعد دونوں مقامات کی سکیورٹی میں انتہائی اضافہ کردیا گیا ہے اب تک صرف ایک خودکش حملہ مری روڈ پر ہوا ہے اس میں بھی حساس ادارے کی بس کو نشانہ بنایا گیا تھا راولپنڈی میں آئی ایس آئی کا اہم دفتر بھی مری روڈ پر موجود ہے جس کی سکیورٹی انتہائی فول پروف رکھی گئی ہے اور وہاں نزدیک کسی بھی شخص کو کھڑا نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر کسی کی اتفاق سے گاڑی خراب ہوجائے تو وہاں موجود چوکیوں سے اس پر مکمل نظر رکھی جاتی ہے اور وہاں سے فوراً جانے کا کہا جاتا ہے جس کے لئے سخت زبان کا استعمال بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے ۔

شاہد خان آفریدی جب کرکٹ کی دنیا میں آئے تو اپنے دوسرے میچ میں جو کہ سری لنکا کے خلاف تھا دنیا کی سب سے تیز رفتار سینچری بنا کر انھوں نے عالمی شہرت حاصل کرلی بعد میں بھی وہ اپنی جارحانہ بیٹنگ کے حوالے سے پہچانے جاتے رہے اور انہیں بوم بوم آفریدی کے نام سے پکارا جانے لگا بنیادی طور وہ ایک لیگ اسپنر ہیں لیکن وہ بیٹنگ کی وجہ سے ٹیم میں رہے اگرچہ ان کی بیٹنگ جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر ہونا چاہیئے تھی نہیں ہوسکی لیکن وہ اپنی شہرت کی وجہ سے ٹیم میں رہے انتہائی کم رنز کی اوسط ہونے کے باوجود بھی صرف حالیہ ورلڈ کپ میں ان کی بائولنگ متاثر کن رہی ان سب باتوں کے باوجود ان کو ٹیم کا کپتان بنایا گیا انہوں نے کپتانی کی جو بہت متاثر کن تو نہیں تھی لیکن بورڈ کے پاس ان کے علاوہ کپتانی کی کوئی چوائس بھی نہیں تھی اور پھر اچانک ہی بورڈ نے ٹرن لیتے ہوئے انھیں کپتانی سے ہٹا دیا جس پر شاہد خان آفریدی سیخ پا ہوگئے اور پھر اعجاز بٹ اور وہ آمنے سامنے آگئے آفریدی نے پریشر کے لئے پہلا وار کیا اور کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تاکہ بورڈ پر پریشر ڈل سکے اعجاز بٹ جو ستر کے پیٹے میں ہیں ان کے سامنے شاہد خان آفریدی بچہ تھا انہوں نے جوابی کارروائی کے طور پر شاہد آفریدی جو استعفی کے بعد ہمشائر کائونٹی کی طرف سے جاکر کھیلنے کا پلان بنا رہے تھے اس کا این او سی منسوخ کردیا شاہد آفرید ی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اعجاز بٹ ایسا کریں گے کیونکہ آفریدی اس سے پہلے ہی این او سی لے چکے تھے اور ان کے خیال میں بورڈ دیا ہوا این او سی کینسل نہیں کرے گا ہاں اگر ان کے پاس این او سی نہ ہوتا تو پھر بورڈ این او سی سے انکار کرتا اور انہیں چکر لگواتا لیکن اعجاز بٹ نے بھی بڑی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہمشائر کائونٹی کی طرف سے نہ کھیلنے کی صورت میں شاہد آفریدی کو ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوتا نظر آیا تو وہ پریشان ہوگئے کیونکہ اس کے بعد سری لنکن لیگ والا معاہدہ بھی خطرے میں نظر آرہا تھا مشیروں نے مشورے دیئے اور آفریدی عدالت کے دروازے پر جا پہنچے لیکن اعجاز بٹ نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیل رکھیں تھیں انہوںنے اپنے لوگوں کو پہلی ہدایت یہ کی کہ فی الحال عدالت سے تاریخیں لے کر اس کی ہمشائر کائونٹی اور سری لنکن لیگ کا ٹائم تو گزارو اس کے بعد دیکھتے ہیں آفریدی نے جیسے ہی دیکھ کہ عدالت میں پہلی ہی پیشی پر پی سی بی نے صرف وقت لیا ہے اور کیس لیٹ کرنے کے ہتھکنڈے شروع کردیئے ہیں تو ان کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ دال تو ایسے نہیں گلے گی فوراً ہی اگلا فیصلہ یہ کیا کہ سیاسی دبائو ڈالا جائے اور این او سی نکلوایا جائے کیونکہ جب اس سلسلے میں عدالت سے بات کی کہ میرا مالی نقصان ہوگا تو جواب یہ ملاکہ مقدمہ جیت گئے تو ہرجانے کا دعوی کرکے نقصان پورا کرلینا شاہد خان آفریدی نے جہاں اور سیاسی لوگوں سے ملاقاتیں کیں وہاں ہی وہ بلاول بھٹو زرداری کے پاس بھی گئے اور ان کے گٹے گوڈے پکڑے جس پر بلاول بھٹو زرداری نے فوراً رحمان ملک کو حکم جاری کیا کہ اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور شاہد خان آفریدی کو این او سی دلوایا جائے حکم حاکم مرگ مفاجات رحمان ملک نے فوراً ہی اعجاز بٹ اور شاہد خان آفریدی کی ملاقات کا اسلام آباد میں بندو بست کیا ۔
اس ملاقات کی روداد بھی دلچسپ ہے جس میں ذرائع کے مطابق وزیردفاع احمد مختار اور خود رحمان ملک بھی موجود تھے پہلے تو ماحول بہت گرم ہوگیا جب آفریدی اور بٹ صاحب نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی جس پر معزز سیاسی افراد جو وہاں موجود تھے نے مداخلت کی اور کہا کہ ’’اوئے ٹھنڈے ٹھار ہو کہ گل کرو ‘‘گلے شکوں کے بعد حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور بلآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ آفریدی
نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے جس پر اس کا این او سی تو بحال ہوگا لیکن 45لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جس پر آفریدی نے حامی بھرلی اور یوں معاملہ طے پا گیا ۔
یہ تھی پٹھان اور بٹ کی جنگ جو اختتام کو پہنچی یہ جنگ کی اقتدار کی ایک کپتانی کی بھوکا دوسرا اپنی چیئرمین شپ کے فخر میں تھا جیت کس کی ہوئی ہار کس کی میرے نزدیک اخلاق ہار گیا یہ دونوں جیت گئے ۔لیکن قوم کے ان ہیروز نے جو یہ سب کیا اس میں وطن پرستی کہاں تھی ۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved