اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

کنوارے پن کے ٹیسٹ کے انکشافات

1979
 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی
انیس سو ستر کے عشرے میں برطانیہ کے ويزا ضابطوں کے تحت جنوبی ایشیائی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کرنے کے بارے میں کچھ نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ویزا دینے کے لیے لڑکیوں کی دوشیزگی کی جانچ کا معاملہ جتنا سمجھا جا رہا تھا اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے ۔

فروری 1979 میں کنوارے پن یا دوشیزگی کی جانچ کے بارے میں انکشاف اور ہنگامہ آرائی کے بعد برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ حکومت نے یہ اعتراف کیا تھا کہ اس طرح کے ایک دو معاملے ہوئے تھے لیکن آسٹریلیائی محققوں کے ہاتھ بعض ایسی فائلیں آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کم ازکم 80 بھارتی خواتین کو برطانیہ آنے کے لیے اس ہتک آمیز عمل سے گزرنا پڑا تھا۔

اس انکشاف کے بعد اب یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت معافی مانگے۔

برطانوی قانون کے تحت تیس برس گزرنے کے بعد اس طرح کی فائلوں کی کاپی نکالنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ اسی کے تحت آسٹریلیائی محققوں نے کئی محکموں سے دستاویزات حاصل کی ہیں۔


لڑکیوں کے کنوارے پن کی جانچ برطانیہ کی سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔
ان دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک سے شادی کر کے برطانیہ میں جا کر بسنے والی خواتین کے کنوارے پن کی جانچ کے ایک دو نہین بلکہ متعدد واقعات ہوئے تھے اور یہ جانچ سرکاری پالیسی کا حصہ تھی۔

لندن سے چھپنے والے اخبار ''گارڈین '' میں خبر شائع ہو نے کے بعد فروری 1979 میں برطانوی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے جانچ کے عمل پر پابندی لگا دی تھی۔

ایڈیلیڈ یونیورسٹی کے شعبۂ قانون کے محقق اے ون سمتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت برطانوی حکومت نے بس ایک دو ایسے واقعات کی بات تسلیم کی تھی لیکن یہ سچ نہیں تھا۔

آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔
سمتھ نے کہا ’برطانیہ کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور وزیراعظم کے دفتر سے ہم نے جو کاغذات حاصل کیے ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 1970 کے عشرے میں بھارت میں دلی اور مُمبئی میں 80 خواتین کی جانچ ہوئی تھی۔ ’ہمارے پاس پاکستان اور بنگنہ دیش کے اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ جتنا سمجھا جا رہا تھا یہ معاملہ اس سے کافی بڑا ہے‘۔

فروری 1979 میں اس معاملے کے سامنے آنے پر جوائنٹ کاؤنسل آن ویلفیر آف مائگرینٹس نے اس کی کافی مخالفت کی تھی۔

1960 میں قائم کیے گئے اس ادارے کی قانونی معاملات کی سربراہ حنا ماجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی شرمناک معاملہ ہے اور جس کے لیے حکومت کو معافی مانگنی چاہیے ۔

وہ کہتی ہیں ’ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جنوبی ایشیائی خواتین سے ہونے والی ان ذیادتیوں پر معافی مانگے کیونکہ یہ ایک شرمناک اور نفرت انگیز عمل تھا۔ اس بات کو سرکاری طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے کہ کیونکہ یہ عمل خواتین، مائگرینٹس اور انسانی حقوق کے تئیں اہانت کے جزبات کا عکاس تھا‘۔

آسٹریلیائی تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ بھارتی نوجوان لڑکیوں کے کنوارے پن کی میڈیکل جانچ کے واقعات دلی اور مُمبئی میں واقع ویزا دفاتر میں اور کئی بار برطانیہ پہنچنے پر ہیتھرو ائر پورٹ پر بھی پیش آئے تھے۔

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved