ا
سُستیاں چھوڑ دے اُٹھ
باندھ کمر آج کی رات
آج تھکنا نہیں مغرب تا فجر آج کی رات
رات جھکنے کی ہے جھکنے سے نہ ڈر آج کی رات
جھک گئے دیکھ شجر اور حجر آج کی رات
کتنا آساں ہے بلندی کا سفر آج کی رات
دیکھ کیڑوں کے بھی اُگ آئے ہیں پر آج کی رات
خوب ہے کیمیا دانی کا اثر آج کی رات
سنگ کیسے بھی ہوں بنتے ہیں گہر آج کی رات
فضل مولا کا ہو اور اذن ِ سفر آج کی رات
تو ملا ئک سے بھی بڑھ جا ئے بشر آج کی رات
آنکھ لگتی نہیں عاشق کی تو لمحہ بھر بھی
اور کب جاگے گا جاگا نہ اگر آج کی رات
دائیں بائیں وہی دنیا ، وہی دنیا کے مکر
دیکھ سجدے سے اُٹھانا نہیں سر آج کی رات
غافلوں میں وہ کہیں نام نہ لکھ لیں تیرا
غول آئے ہیں ملا ئک کے اتر آج کی رات
آج کی رات عمل کی ہے دلیلوں کی نہیں
چھوڑ دے ساری اگر اور مگر آج کی رات
بے خبر رات یہ رونے کی ہے سونے کی نہیں
چھوڑ آسائشیں بستر سے اُتر آج کی رات
آج طبیعت کی خرابی کے بہانے نہ بنا
خوں رُلائے گا تجھے تیرا مکر آج کی رات
۲
آج جو عشق میں مر جائے وہ
جی اُٹھے گا
کوئی چاہے تو ملے عمر ِ خضر آج کی رات
آج مُڑتا نہیں خالی کوئی در سے اس کے
آ ہی پہنچا ہے تو نادان ٹھہر آج کی رات
یوں تو ہر حال میں اچھے ہیں ہنسی سے آنسو
گریہ زاری کا بڑا مول ہے پر آج کی رات
مرتبے آج سبھی لے گئے رونے والے
جن کو آتا تھا تڑپنے کا ہُنر آج کی رات
اس کو حق ہے وہ کرے ناز سو جتنا چاہے
طے کیا جس نے اُجالوں کا سفر آج کی رات
مری خاموش دعا چیخ ہے سناٹے میں
لفظ گونگے ہیں مری چشم ہے تر آج کی رات
نُور ہی نور بنا دے مرے مولا مجھ کو
مرے آنگن میں اُتر آئے قمر آج کی رات
تری جانب سے ملے کوئی اشارہ پیارے
کاش آ جائے تسلی کی خبر آج کی رات
مری تقدیر سنور جائے جو رحمت ہو تری
لیلتہ القدر میسر ہو اگر آج کی رات
|