اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:- 

Telephone:-         

 

 طا رق حسین بٹ

چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فو رم ۔۔جنرل سیکر ٹری ہیو من را ئٹس مڈل ایسٹ

تاریخ اشاعت13-05-2010

نقشِ کہن

کالمطا رق حسین بٹ

 آٹھارویں آئینی ترمیم سے بہت سے لو گو ں نے بہت سی امیدیں وا بستہ کر رکھی تھیںوہ بز عمِ خویش یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ آٹھویں ترمیم کی منظو ری سے ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، حو شحا لی کا دور دورہ ہو جا ئےگا بے رو ز گا ری کا خا تمہ ہو جائےگا اور بجلی پانی اور گیس کے مسا ئل حل ہو جا ئیں گے ۔ اس طرح کی اور بہت سی امیدیں تھیں جو اس ترمیم کے ساتھ کچھ لو گو ں نے وا بستہ کر لی تھیں جو کہ بنیا دی طور پر غلط تھا ۔۸۱ آئینی ترمیم کا اولین مقصد وہ آئینی سقم دور کرنے تھے جو فو جی جر نیلو ں نے اپنے اقتد ار کے دوام کی خا طر آئین میں گاہے بگا ہے ٹانک لئے تھے اور فوجی مدا خلت سے آئین کا حلیہ بگا ڑ دیا تھا۔سوال صدر یا وزیرِ اعظم کے اختیا ر ات کا نہیں تھا بلکہ اہم سوال یہ تھا کہ آئینی طور پر ریا ست کو چلا نے کے اختیا رات کس کے پا س ہو نے چا ئیں ۔ پا رلیما نی جمہو ریت میں سارے اختیا رات وزیرِ اعظم کے پاس ہو تے ہیں کیو نکہ وہی عوا م کو جوا بدہ ہو تا ہے لہذا ضروری تھا کہ آئین کی تصحیح کر لی جا ئے پا ر لیمنٹ کو با اختیار بنا د یا جا ئے تا کہ حکو متی معا ملات بہتر انداز میں چلا ئے جا سکیں۔ آئین اپنے شہر یو ں کو رو ٹی کپڑے اور مکا ن کی ضما نت نہیں دیتا البتہ ایسے اصو ل و ضوا بط کا تعین ضرور کرتا ہے جن پر عمل پیرا ہو کر ملک سے غربت کا خا تمہ کیا جا سکے عوا می مسا ئل کو حل کیا جا سکے عوام کے بہتر مستقبل کی ضما نت دی جا سکے اور ان کی زند گیو ں میں امید کی شمعیں روشن کی جا سکیں ۔یہ اپنے شہر یو ں کی املاک اور زند گیو ں کے تحفظ اور امن و امان کی ضمانت دیتا ہے اور روزگار کا وعدہ کرتا ہے۔بہترین آئین وہی ہے جو عوام کی حقیقی امنگوں کا حقیقی ترجمان ہو اور حکو متی امو ر کو چلانے کے لئے مضبوط، شفاف اور ٹھو س بنیا دیں فرا ہم کرتا ہو ۔ آئین حکمر ا نو ں کےلئے حدودو قیود کا تعین بھی کرتا ہے اور انھیں ان پر کا ر بند رہنے کا پا بند بھی کرتا ہے اصول وضوا بط کی مو جودگی اہل اقتدار طبقے کےلئے ایک ایسے معیار کا تعین کرتی ہے جس سے حکمرا نو ں کے کردار کو جا نچا جاتا ہے۔اگر میں یہ کہو ں کہ آئین حکمرا نو ں کے اعمال پر محتسب کا کردار ادا کرتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
اگر کو ئی کھیل رولز اور ریگو لیشن کے بغیر ہو تو اس کھیل میں بھگڈر مچ جا تی ہے افرا تفری کا رنگ غا لب آجا تا ہے ہر کھلاڑی اپنی سہو لت کے مطا بق کھیلنے کی کو شش کرتا ہے اورر نتیجہ ہنگا مہ آرا ئی اور سر پھٹول کے علاو ہ کچھ بھی نہیں نکلتا لہذا ہر کھیل کے رولز کا تعین کھیل کے آغاز سے قبل کر لیا جا تا ہے تا کہ کسی کو ذا تی طاقت اور اثرو رسوخ سے با زی ہاتھ میں لینے کا خیال پیدا نہ ہو سکے اگر ہر کھلا ڑی ولز کا اتباع کرے توکھیل پر امن اور پر لطف رہتا ہے۔ اسی طرح اگر کو ئی ملک آئین کے بغیر ہو تو اسکی حا لت کا اندا زہ لگا نا چندا ں مشکل نہیں ہے لہذا کسی بھی مملکت کےلئے سب سے پہلے آئین وقوا نین تیار کئے جا تے ہیں تاکہ مہذب اقوا م میں اسکا شمار بھی ہو سکے اور اسکے امور کسی ضا بطے اور قوا نین کی رو سے چلا ئے بھی جا سکیں۔آئین ادار ے تخلیق کر تا اور انکے اختیا رات کا تعین کرتا ہے ۔آئین مقننہ۔ عدلیہاور انتظا میہ کے دا ئرہِ کار اور حد و د و قیود کا تعین کرتا ہے وفاق اور صو بو ں کے تعلقات، اختیارات اور ما لی معاملات کا تعین بھی کرتا ہے تا کہ ملکی معا ملات سر انجام دیتے وقت مختلف اداروں اور وفا قی یو نٹوں کی اپس میں ٹکرا ﺅ کی کیفیت پیدا نہ ہو سکے۔
۲۱ اکتو بر ۹۹۹۱ کو جنرل پر ویز مشرف نے میا ں محمد نواز شریف کی آئینی حکو مت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔میا ں صا حب نے اپو زیشن کے ساتھ جو معا ندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا اسنے پاکستان کی صفِ اول کی قیا دت کو جلا وطنی پر مجبو ر کر دیا تھا۔ آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر مقدمات کی بھر مار کر دی گئی تھی۔ آصف علی زرداری او ر پی پی پی کے بہت سے دوسرے راہنما ﺅ ں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا تھا جمہو ری قبا کے اندر مار شل لا ئی سوچ اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ کسی کو آواز بلند کرنے اور اپنا ما فی ا لضمیر بیا ن کرنے اور حکو مت پر تنقید کرنے کی اجا زت نہیں تھی جس کسی نے بھی ایسا کر نے کی کو شش کی اسکی گرد ن دبو چ لی گئی اور اسے جیل کی سلا خو ں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ سو ٹرز لینڈ کی عدا لتو ں میں آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر مقدما ت دا ئر کر کے ملکی خزا نے کو اربو ں روپو ں کا نقصان پہنچا یاگیا مقصدصر ف اتنا تھا کہ انھیں نا اہل قرار دلوا کر ملکی سیا ست سے بےدخل کر دیا جا ئے تا کہ امیر المو منین کی مسند پر بیٹھنے کی راہ کی ساریں رکا وٹیں خود بخود ختم ہو جا ئیں لیکن عین اس وقت جبکہ ہر چیز میا ں صا حب کی مکمل گرفت میں تھی اور انکے اقتدار کا سورج نصف ا نہار پر تھا جنرل پر ویز مشرف نے میاں صا حب کی حکو مت کو بر خا ست کر کے انکے سارے خوا بو ں کو چکنا چور کر دیا۔ میا ں صاحب کو گرفتار کر لیا گیا اور اسی جیل میں انھیں رکھا گیا جہا ں پر وہ اپنے مخا لفین کو ر کھ کر انکی بے بسی کا تما شہ دیکھا کرتے تھے۔میا ں صا حب پر مقدمہ چلا جس میں انھیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔ میا ں صا حب جیسے شخص کےلئے جیل کی صعو بتو ں کو سہنا ممکن نہیں تھا لہذا ایک معا ہدے کے تحت میا ں صا حب ۰۱ سال کےلئے سعو دی عرب جلا وطن ہو گے۔میا ں صا حب کی جلا و طنی نے میا ں صا حب کے اندر ایک نئے احساس کو جنم دیا نئی جمہو ری سوچ اور اس کی مضبو طی اور محبت کو پروان چڑھا یا اور یہی سے میثا قِ جمہو ریت جیسی اس تا ریخی دستا ویز کی تیا ری کی را ہ ہموار ہو ئی جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا سب سے نا در شا ہکار ہے۔ میا ں صا حب جیسی شخصیت کو جنکا پی پی پی کا نام سن کر ہی خون کھول اٹھتا تھا میثا قِ جمہو ریت پر را ضی کرنا محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم شخصیت کا کمال ہی ہو سکتا تھا جسکے رگ و پہ میں جمہو ریت سے محبت اور آمریت سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک لفظِ آمریت ہے جو مٹ جا نے کو ہے۔۔۔صحنِ زندا ں میں ہو ائے زندگی آنے کو ہے
عشق میں اور حسن میں ہے اس طرح با ہم کشش ۔۔ شمع سے اک خا ص رغبت جیسے پر وا نے کو ہے ( ڈا کٹر مقصود جعفری
جنرل پر ویز مشرف نے۷ نکا تی پرگرام دیا۔ عدا لتِ عظمی نے جنرل صا حب کے ما ر شل لا کو جا ئز قرار دےکر اسے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی سو نپ دیا جسکا بھر پور فا ئدہ اٹھا کر جنر ل صاحب نے اپنی مر ضی کی ترا میم کر کے آئین کو داغدار کر دیا ۔ مو جو دہ پا رلیمنٹ دادو تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے جرنیلی ترامیم سے آئین کو پا ک کرنے کے عظیم کا نا مے کو سر انجا م دینے میں جرا ت کا مظا ہرہ کیا ہے۔ ۸۱ آئینی ترمیم سے آئین کا حلیہ ٹھیک کر لیا گیا ہے اور اسمیں آ مر یت کے تمام ادوار میں کی گئی ساری ترا میم کا صفا یا کر دیا گیا ہے لیکن ما رشل لا کو آئینی قرار دینے وا لے پی سی او ججز آج بھی انصا ف کی کرسی پر بیٹھے ہو ئے ہیں اور حکو متِ وقت کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکار رہے ہیں وقت آگیا ہے کہ ما رشل لا کی آخری نشا نیو ں کو انکی مسند سے اتار کر جمہو ری قبا کو اسکی پا کیزگی اور عظمت عطا کی جا ئے ۔میاںصا حب آمر یت کی ان بچی کھچی نشا نیو ں کو مٹا نے میں سدِ راہ بنے ہو ئے ہیں لگتا ہے آمریت کی نشا نیو ں سے محبت ابھی تک میا ں صا حب کے دل کے کسی نہ کسی گو شے میں کہیں نہ کہیں مو جو د ہے جو انکے دل کو انکی جا نب کشا ں کشاں کھینچے لئے جا رہی ہے اور انکے تقدس پر ابھار رہی ہے حالا نکہ ۸۱ ترمیم کے ساتھ انکا کام تمام ہو جاناچا ئیے تھا ۔ میا ں صا حب کو دیر یا بدیر اس با ت کا ا حساس ہو جائےگا کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں چل سکتا لہذا آمر یت کی ان ساری نشا نیو ں کا مٹ جا نا انتہا ئی ضروری ہے کیو نکہ ایسا نہ کرنا جمہو ری تجربے کو طو فا نوں کے حوا لے کرنے کے مترا دف ہو گا ۔ دیکھیے دیدہ ور نے ا س حقیقت کو کس خو بصورتی سے بیا ن کیاہے۔
سلطا نیِ جمہو ر کا آتا ہے زما نہ۔۔۔۔جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
کیو ں خا لق و مخلو ق میں حا ئل رہیں پردے۔۔پیرا نِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو (ڈا کٹر علا مہ محمد ا قبال

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team