کافی سے کینسر ہو سکتا ہے

امریکی شہر لاس اینجلس کی ایک عدالت نے حکم دیا ہے کہ ریاست کیلیفورنیا میں فروخت کی جانے والی کافی پر سرطان سے خبردار کرنے کا پیغام (وارننگ لیبل) لگانا ضروری ہے۔

کونسل فار ایڈجوکیشن اینڈ ریسرچ آن ٹاکسکس نے سٹار بکس سمیت تقریباً 90 کافی کمپنیوں پر صارفین کو کافی میں موجود زہریلے کیمیکل کے بارے میں آگاہ نہ کرنے پر مقدمہ کیا ہے۔

اس گروپ کا کہنا ہے کہ ایکرائل امائیڈ جو کہ کافی کو روسٹ کرنے کے دوران پیدا ہوتا ہے کو کیلیفورنیا کے قوانین کے تحت (کارسینوجینک) کینسر کا موجب سمجھا جاتا ہے۔
سنہ 2016 میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے (کارسینوجینک) کی ممکنہ فہرست میں سے کافی کو نکال دیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود لاس اینجلس کی عدالت کی طرف سے ایسا فیصلہ آیا ہے۔

خبر راساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان کمپنیوں کو ممکنہ طور پر لاکھوں ڈالر جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

بدھ کو سپیریئر کورٹ کے جج ایلیہو برلے نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سٹار بکس سمیت کئی دیگر کمپنیاں (کارسینوجینک) سے خطرے کے بارے میں آگاہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
جن کمپنیوں پر مقدمہ کیا گیا ہے ان کے پاس اپیل کرنے کے لیے 10 اپریل تک کا وقت ہے۔

سٹار بکس نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صحافیوں کو نیشنل کافی ایسوسی ایشن (این سی اے) کے اس بیان کو پڑھنے کا کہا جس میں کہا گیا ہے کہ کافی کی صنعت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے اور دیگر قانونی کارروائی کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے کیونکہ بقول ان کے کینسر کے حوالے سے کافی پر لگائے جانے والا ’وارننگ لیبل‘ گمراہ کن ہو سکتا ہے۔

این سی اے کے بیان کے مطابق ’امریکی حکومت کی اپنی غذائی ہدایت میں کافی کو صحت مند بتایا گیا ہے۔‘

دوسری جانب ڈنکن ڈونٹس، مک ڈونلڈز کارپوریشن، پیٹس اور کافی فروخت کرنے والے دیگر برینڈز کے حکام نے بھی اس حوالے سے تاحال کچھ نہیں کہا ہے۔

یہ مقدمہ کونسل فار ایڈجوکیشن اینڈ ریسرچ آن ٹاکسکس نے سنہ 2010 میں کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان میں سے ہر کمپنی پر 2002 سے کیلیفورنیا میں ان کی دکانوں پر آنے والے ہر گاہک کے بدلے 2500 ڈالر جرمانہ کیا جانا چاہیے۔

یہ جرمانہ عدالتی کارروائی کے اگلے مرحلے میں بڑھ بھی سکتا ہے۔

پنھنجي راءِ لکو