اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں  

تاریخ اشاعت:۔02-09-2010

  جدید نسل کے بھیڑیوں اور ابلیسوں کو سلام
 

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

لاہور کے داتا دربار پر جولائی میں اسلام کے خود ساختہ مجاہدین نے تین درجن سے زائد زائرین کا جو لہو بہایا تھا اسکی لالی ابھی تک خشک نہیں ہوئی۔دنیائے تصوف کے برگزیدہ ولی حضرت داتا گنج بخش ہجویری کی اخری ارام گاہ میں وحشت کا جو گھناوئنا کھیل کھیلا تھا اسکا درد ابھی تک مسلمانوں کی روحوں سے ختم نہیں ہوا کہ انہی بھیڑیوں نے امن رواداری پیار و یگانگت مذہبی بھائی چارے کا درس دینے والے مقدس ترین ماہ رمضان میں شیر خدا کے یوم شہادت پر بربریت کی تاریخ دہراتے ہوئے تین دھماکوں میں29 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بھیڑیوں کی اس بھیڑ چال میں 200 سے زائد مسلمان زخمی ہوگئے۔ بی بی سی کے مطابق تینوں دھماکے نصف گھنٹے کے اندر ہوئے۔لشکر جھنگوی نے اس بہیمانہ استبدادیت کی زمہ داری تسلیم کرلی ہے۔ پہلا دھماکہ شام سات بجے کربلا گامے شاہ میں ہوا جہاں زائرین روزہ افطار کررہے تھے۔ ابھی فورسز کے جوان اور شرکائے جلوس دھاڑیں مارتے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کا کام کررہے تھے کہ بھاٹی گیٹ میں دوسرا بلاسٹ ہوا۔ وائس اف امریکہ نے رپورٹ دی ہے کہ پہلا خود کش دھماکہ گامے شاہ جبکہ بھاٹی گیٹ میں دو دھماکے ہوئے۔ کمشنر لاہور سجاد بھٹہ نے اے پی پی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دونوں حملے خود کش تھے جبکہ تیسرا دھماکہ کریکر کا تھا۔ سجاد بھٹہ کے مطابق ایک بمبار کا سر مل گیا ہے۔ دو ماہ قبل داتا دربار پر ہونے والے خود کش حملوں کے متاثرین نے سیکیورٹی کے انتظامات کو ناقص ترین کہا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق یوم شہادت علی پردو خود کش بمباروں نے اپنے اپکو اس وقت اڑا دیا جب وہ ماتمی جلوسوں کے وسط میں پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ وائس اف امریکہ کی مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق خون کی ہولی اور جانوں کے ضیاع پر ماتمی جوان مشتعل ہوگئے اور انہوں نے جائے حادثہ پر موجود پولیس کی گاڑیوں پر پتھراو کیا اور ساتھ ہی واقع پولیس اسٹیشن کو نذر اتش کردیا۔ پولیس اور مظاہرین کے مابین کشا کش بھی ہو تی رہی۔پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے انسو گیس والہ پرانا کلیہ استعمال کیا۔کمشنر لاہور سجاد بھٹہ نے ناقص سیکیورٹی کی شکایات پر سرخم تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جلوسوں کے اختتامی مراحل پر سیکیورٹی معیار کے مطابق نہ تھی۔دوسری طرف پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ بضد رہے کہ حکومت پنجاب نے پول پروف سیکیورٹی انتظامات کئے تھے۔ حکومت پنجاب کو سجاد بھٹہ جو شہباز شریف کی زاتی کیبنٹ کے نورتن ہیں کے بیان کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وجہ کچھ بھی ہو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں مکمل طور پر فلاپ ہوچکی ہیں۔ سانحہ داتا دربار کے صرف دو ماہ بعد بھیڑئیے ایک بار پھر اشرف المخلوق کا گوشت نوچنے میں کامیاب رہے۔بلاشبہ ہماری سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی لمحہ فکریہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سیکیورٹی والوں کے خیالات میں یہ نقطہ در ایا ہو کہ ماہ رمضان اور یوم شہادت علی کی مقدسیت کے دوران اسلام کا کوئی ایک ادھا نام لیوا ایسی شرپسندی کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر قرائن سے ظاہر ہے کہ ایسی سوچ کے حامل سیکیورٹی پلانرز عالمی شہرت یافتہ شاعر سارتر کا یہ جملہ بھلا بیٹھے کہ بھیڑیوں سے خیر کی توقع کرنا ہی نادانی ہے۔سیکیورٹی فورسز کو مستقبل میں سارتر کے اس جملے کو لازمی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ خود کش بمبار چاہے پشاور کے تھانوں میں خون بہائے یا وہ صوفیائے کرام کے مزاروں اور ماتمی جلوسوں میں وحشیانہ کھیل کھیلیں وہ امریکہ کی نفرت میں مسلمانوں کو موت کی صلیب پر لٹکاتا رہے یا پھر اپنے مسالک کے اسلام کی رو سے شیعوں کو کافر کا لقب دیکر موت بانٹتا رہے۔کسی بمبار کا تعلق چاہے حکیم محسود کے لشکر سے ہو یا وہ کسی جھنگوی کا پیرو کار ہو سچ تو یہ ہے کہ معصوم روزہ داروں ماتمی زائرین اور سیکیورٹی فورسز پر خود کش حملے کرنے والا انسانیت کے دائرے سے ہی خارج ہے کیونکہ بے گناہ مسلمانوں اور ہم وطنوں پر وحشت مسلط کرنے والا ابلیس کا چیلا تو ہوسکتا ہے مگر شرف انسانیت کا علمبردار نہیں۔ دہشت گردوں نے ایک ایسے وقت پر انسانیت اور مسلمانیت کی حرمت پامال کی جب دو کروڑ سے زائد پاکستانی سیلاب کی ہولناکیوں کا شکار ہیں۔بمباروں اور ظالموں نے سیلاب کی بربادیوں سے اجڑے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کے غموں میں اضافہ کردیا ہے۔دہشت گردوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ نہ تو اسلام کی کوئی خدمت کررہے ہیں اور نہ ہی وہ جہادی روایات پر کاربند ہیں بلکہ وہ تو خونخوار بھیڑئیے اور ابلیسی افکار کے پر چار ہیں۔ اگر کوئی فلاسفر یا ماہر سائنس دان یا دانشور بھیڑیوں اور ابلیسوں کے انداز اور اطوار کی ریسرچ کرے تو وہ یہی ثابت کریگا کہ داتا دربار اور ماتمی جلوسوں میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر خون کے دریا بہانے والے خود ساختہ جہادی دور حاظرہ میں ایک جانب بھیڑیوں اور ابلیسوں کا روپ دھار چکے ہیں تو دوسری طرف وہ اللہ پاک کے باغی بن چکے ۔ خدائی فرامین سے روگردانی رب سے دوستی کی بجائے بغاوت کا زریعہ ہے۔ رب العالمین نے ایک بے گناہ کے قتل کو پوری انسانیت پر ظلمت کے مترادف قرار دیا ہے۔جدید نسل کے بھیڑیوں اور ابلیسوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کا کیا انجام ہوا کرتا ہے۔ بہرحال ہم اتنے بھی تنگ نظر نہیں کہ کسی کی جرات پر تحسین کے چند الفاظ کا خراج نہ دے سکیں۔ ہم یوم شہادت علی اور ماہ رمضان میں درجنوں روزہ داروں اور ماتمیوں کو شہادت کے رتبے پر فائز کرنے والے لشکر جھنگوی کے بھیڑیوں اور ابلیسوں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved