ہیپاٹائٹس سے اموات کی تعداد ٹی بی یا ایڈز کے برابر

برطانوی میڈیکل جرنل ’لانسیٹ‘ کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی سب سے مہلک بیماریوں میں ایک وائرل ہیپاٹائٹس ہے جس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ایڈز یا تپ دق سے ہونے والی ہلاکتوں جتنی ہیں۔
جرنل سے شائع ہونے والی رپورٹ کے تخمینے کے مطابق وائرل ہیپاٹائٹس کی ادویات اور علاج ہونے کے باوجود سنہ 2013 میں اس کے انفیکشنز سے 14 لاکھ 50 ہزار ہلاکتیں پیش آئیں تھی۔
عالمی ادارہ صحت کے عداد شمار کے مطابق سنہ 2014 میں 12 لاکھ ہلاکتیں ایڈز سے منسلک تھیں جبکہ تپ دق کی وجہ سے 15 لاکھ لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔
عالمی ادارہ صحت نے ہیپاٹائٹس سے نمٹنے کے لیے اپنی عالمی حکمت عملی پیش کی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ان کے منصوبوں پر فوری طور پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔
وائرل ہیپاٹائٹس میں پانچ مختلف اقسام کے وائرس ہیں جنھیں اے، بی، سی، ڈی اور ای سے جانا چاتا ہے۔
ان میں سے کچھ بیماریاں جسمانی سیال کے رابطے سے پھیلتی ہیں جب کہ دیگر (اے اور ای) آلودہ خوراک یا پانی سے پھیلتی ہیں۔
دنیا میں ہونے والی بیشتر ہلاکتیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وجہ سے ہوتی ہیں جو جگر کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں اور جگر کے سرطان کی وجہ بھی بنتی ہیں۔
لیکن چونکہ لوگوں کو ابتدائی انفیکشن کی علامات کا کم پتہ چلتا ہے انھیں طویل مدتی نقصان کے بارے میں بہت دیر جانے سے قبل بتایا جا سکتا ہے۔
امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سائنس دانوں نے سنہ 1990 اور سنہ 2013 کے درمیان 183 مملک کے عداد شمار کا جائزہ لیا تھا۔
جائزے میں یہ دیکھا گیا کہ دو ددہائیوں میں وائرل ہیپاٹائٹس سے ہونے والی ہلاکتیں 60 فیصد سے تجاوز کر گئیں۔ اس کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔
دو سری جانب تپ دق اور ملیریا سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ وائرس مشرقی ایشیا میں زیادہ نظر آیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی حکمت عملی جو مئی 2016 میں پیش کی گئی تھی اس کے اہداف میں سال 2020 تک ہیپاٹائیٹس بی اور سی کے نئے کیسوں کی تعداد میں کمی لانے کے علاوہ ہلاکتوں کو 10 فیصد سے کم کرنا بھی شامل ہیں۔

پنھنجي راءِ لکو